افزائشِ نسل میں حد بندی کا کیا حکم ہے، مثلاََ میاں بیوی اس با ت پر باہم متفق ہو جائیں کہ ہم صرف پانچ بچے ہی پیدا کریں گے، یا یہ کہ جب عورت ۳۸ سال کی ہو جائے تو وہ اولاد سے توقف اختیار کرلے؟
حکم تحدید النسل
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
سوال
افزائشِ نسل میں حد بندی کا کیا حکم ہے، مثلاََ میاں بیوی اس با ت پر باہم متفق ہو جائیں کہ ہم صرف پانچ بچے ہی پیدا کریں گے، یا یہ کہ جب عورت ۳۸ سال کی ہو جائے تو وہ اولاد سے توقف اختیار کرلے؟
حکم تحدید النسل
جواب
حقیقت تو یہ ہے کہ نکاح کا اصل اور بڑا مقصد ہی نسلِ انسانی کو بڑھانا ہے،کیونکہ جنابِ دو عالم ﷺنے اسی کی ترغیب دلائی ہے، جیسا کہ ابوداؤد (۲۰۵۰) اورنسائی (۳۲۲۷) میں حدیثِ معقل بن یساررضی اللہ عنہ میں آیا ہے کہ آپ ﷺکی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوکر عرض پرداز ہوا کہ’’ اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک بڑے خاندان کی حسین و جمیل عورت سے نکاح کا ارادہ کرلیا ہے ، لیکن وہ بانجھ ہے، تو کیا میں اس سے شادی کرلوں؟ آپ ﷺنے جواب میں فرمایا : ’’نہیں‘‘، وہ آدمی دوسری بار آکرپھر وہی عرض کرنے لگا تو آپ ﷺنے دوسری بار بھی اسے منع فرمایا ، جب وہ آدمی تیسری بار آیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’شادی کرو تو بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت زیادہ اولاد جننے والی عورت سے کرو کیونکہ میں قیا مت کے دن تمہاری کثرت پر تمام امتوں کے سامنے فخرکرونگا‘‘ اب جس نسل بندی کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے وہ اس مقصد (نسلِ انسانی کے فروغ) کے برخلاف ہے، اور پھر اگر نسل بندی کے لئے ایسے وسائل و ذرائع استعمال کئے جائیں جو بالکلیہ منعِ حمل کا ذریعہ بنے تو یہ تمام اہلِ علم کے نزدیک حرام ہے،کیونکہ اس طرح کرنے میں ایک جان کو نقصان پہنچانا اور ایک منفعت کو ختم کرنا ہے،اور اگر ان وسائل و ذرائع کا استعمال بالکلیہ منعِ حمل کا سبب نہ بنے تو پھر یہ جائز ہے، اس لئے کہ یہ علیحدگی و کنارہ کشی کی طرح ہے، بخار ی شریف(۷۴۰۹) اور مسلم شریف (۱۴۳۸) میں حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ ہم نے آپ ﷺسے عزل (کنارہ کشی ) کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺنےارشاد فرمایا ’’اگر تم نہ بھی کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں، کیونکہ قیامت کی صبح تک جس نے بھی پید ا ہونا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔اور بخاری شریف (۲۲۲۹) کی ایک اور روایت میں ہے کہ ’’قیامت تک اللہ تعالیٰ نے جس ذی روح چیزکے پیدا کرنے کے بارے میں بھی فیصلہ کرلیا ہے تو وہ پیدا ہوکر رہے گی‘‘۔ اور بخاری شریف (۵۲۰۹) اور مسلم شریف (۱۴۴۰) حدیثِ عطاء ؒ میں ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ہم عزل کرتے تھے اس حال میں کہ قرآن اترتا تھا‘‘،اور دوسرے الفاظ میں کہ ’’ہم عہدِ نبویﷺمیں عزل کرتے تھے اس حال میں کہ قرآن اترتا تھا‘‘ مگر ایسا کرنا مکروہ ہے، جیسا کہ امام مسلم (۱۴۴۲) نے حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت جدامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ’’کچھ لوگوں نے آپﷺسے عزل کے متعلق پوچھا تو آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ پوشیدہ طور پہ زندہ درگور کرنا ہے‘‘ ، اب اگر اس حدیث کو ان احادیث کے ساتھ ملا دیا جائے جن میں عزل کے بارے میں جواز ہے تو یہ حدیث عزل کی کراہیت پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ آپﷺنے اسے زندہ د رگوری کا نام دیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نکاح کا اصل اور بڑا مقصد ہی نسلِ انسانی کو بڑھانا ہے،کیونکہ جنابِ دو عالم ﷺنے اسی کی ترغیب دلائی ہے، جیسا کہ ابوداؤد (۲۰۵۰) اورنسائی (۳۲۲۷) میں حدیثِ معقل بن یساررضی اللہ عنہ میں آیا ہے کہ آپ ﷺکی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوکر عرض پرداز ہوا کہ’’ اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک بڑے خاندان کی حسین و جمیل عورت سے نکاح کا ارادہ کرلیا ہے ، لیکن وہ بانجھ ہے، تو کیا میں اس سے شادی کرلوں؟ آپ ﷺنے جواب میں فرمایا : ’’نہیں‘‘، وہ آدمی دوسری بار آکرپھر وہی عرض کرنے لگا تو آپ ﷺنے دوسری بار بھی اسے منع فرمایا ، جب وہ آدمی تیسری بار آیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’شادی کرو تو بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت زیادہ اولاد جننے والی عورت سے کرو کیونکہ میں قیا مت کے دن تمہاری کثرت پر تمام امتوں کے سامنے فخرکرونگا‘‘ اب جس نسل بندی کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے وہ اس مقصد (نسلِ انسانی کے فروغ) کے برخلاف ہے، اور پھر اگر نسل بندی کے لئے ایسے وسائل و ذرائع استعمال کئے جائیں جو بالکلیہ منعِ حمل کا ذریعہ بنے تو یہ تمام اہلِ علم کے نزدیک حرام ہے،کیونکہ اس طرح کرنے میں ایک جان کو نقصان پہنچانا اور ایک منفعت کو ختم کرنا ہے،اور اگر ان وسائل و ذرائع کا استعمال بالکلیہ منعِ حمل کا سبب نہ بنے تو پھر یہ جائز ہے، اس لئے کہ یہ علیحدگی و کنارہ کشی کی طرح ہے، بخار ی شریف(۷۴۰۹) اور مسلم شریف (۱۴۳۸) میں حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ ہم نے آپ ﷺسے عزل (کنارہ کشی ) کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺنےارشاد فرمایا ’’اگر تم نہ بھی کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں، کیونکہ قیامت کی صبح تک جس نے بھی پید ا ہونا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔اور بخاری شریف (۲۲۲۹) کی ایک اور روایت میں ہے کہ ’’قیامت تک اللہ تعالیٰ نے جس ذی روح چیزکے پیدا کرنے کے بارے میں بھی فیصلہ کرلیا ہے تو وہ پیدا ہوکر رہے گی‘‘۔ اور بخاری شریف (۵۲۰۹) اور مسلم شریف (۱۴۴۰) حدیثِ عطاء ؒ میں ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ہم عزل کرتے تھے اس حال میں کہ قرآن اترتا تھا‘‘،اور دوسرے الفاظ میں کہ ’’ہم عہدِ نبویﷺمیں عزل کرتے تھے اس حال میں کہ قرآن اترتا تھا‘‘ مگر ایسا کرنا مکروہ ہے، جیسا کہ امام مسلم (۱۴۴۲) نے حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت جدامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ’’کچھ لوگوں نے آپﷺسے عزل کے متعلق پوچھا تو آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ پوشیدہ طور پہ زندہ درگور کرنا ہے‘‘ ، اب اگر اس حدیث کو ان احادیث کے ساتھ ملا دیا جائے جن میں عزل کے بارے میں جواز ہے تو یہ حدیث عزل کی کراہیت پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ آپﷺنے اسے زندہ د رگوری کا نام دیا ہے۔