×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نکاح / زانی مرد کا اپنی حرام اولاد کو اپنی طرف ملحق کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2342
- Aa +

سوال

جب زانی مرد اپنی حرام اولاد کا اقرار کرے اور ان کو اپنی طرف ملحق کرنا چاہے تو کیا ان کو اس کی طرف ملحق کیا جائے گا؟ استلحاق الزانی ولدہ من الزنا

جواب

تمام اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ وہ عورت جس کے ساتھ زنا ہوا ہے اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کے حمل کو اس کے خاوند کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا ،  البتہ ہاں اگر اس عورت کا خاوند اس بچے کی نفی کرے اور کہے کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے تو اس صورت میں بچے کو ماں کی طرف منسوب کیا جائے گا، جیسا کہ بخاری شریف (۲۰۵۳) اور مسلم شریف (۱۴۵۷) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’ صاحبِ فراش کے لئے بچہ اور زناکار کے لئے حجر(سزا )ہے‘‘ یعنی اس کے لئے اس کے سوا اور کچھ نہیں، اور اسی پر تمہید (۸/۱۸۳)  وغیرہ میں ابن عبد البر نے اجماع ذکر کیا ہے۔

اور اگر وہ عورت جس سے زنا کیا گیا ہے وہ غیر شادی شدہ ہواور اسے زنا سے حمل ہو جائے توپھرجمہورعلماء کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ کہ بچے کو زانی کی طرف ملحق نہیں کیا جائے گا،ان علماء نے آپ کے اس ارشاد مبارک سے استدلال کیا ہے کہ ’’زناکار کے لئے سزا ہے‘‘ پس آپ نے زانی کے لئے کچھ نہیں مقرر کیا۔

اور اہلِ علم کی ایک جماعت جن میں حضرت حسن ،حضرت ابن سیرین،حضرت نخعی اور حضرت اسحاق رحمہم اللہ سرِفہرست ہیں،  وہ  فرماتے ہیں کہ اگر زانی بچے کو اپنی طرف ملحق کرنا چاہے تو بچے کو اس کی طرف ملحق کردیا جائے گا،اور یہی شیخ الاسلا م امام ابن تیمیہؒ کا بھی قول ہے،  اور ان حضرات نے امام مالک ؒ کی کتاب موطأمیں ذکرشدہ روایت(۷۴۰/۲)سے استدلال کیا ہے کہ’’حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ زمانۂ جاہلیت کی اولاد کو اسلام میں ان لوگوں کے ساتھ ملحق کرتے تھے جو ان کا دعوی کرتے تھے‘‘  اور فرماتے ہیں کہ جمہور نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ شادی شدہ عورت پر محمول ہے،  اور یہی قول قابلِ نظر ہے۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں