ایک لڑکے لئے اپنی منگیتر میں کیا کیادیکھنا جائز ہے؟
صفة الرؤية الشرعية
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
سوال
ایک لڑکے لئے اپنی منگیتر میں کیا کیادیکھنا جائز ہے؟
صفة الرؤية الشرعية
جواب
حامداََ ومصلیاََ۔۔۔
امابعد۔۔۔
اہل علم کے نزدیک اگر عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو اس کو دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ْﷺنے ایک آدمی سے ارشاد فرمایاجس نے ایک عورت سے شادی کی تھی:’’کیا آپ نے اس عورت کو دیکھا ہے ؟‘‘اس نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ ﷺنے اس سے فرمایاکہ جاؤ اور اس کو دیکھ کر آجاؤ کیونکہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں نیلگی ہوتی ہیں ‘‘۔ اور لڑکے کے سامنے ظاہر ہونے کی مقدار میں اختلا ف ہے۔ اور چہرے کے دیکھنے میں تو سب کا اتفاق ہے ۔ کیونکہ چہرے سے ساری خوبیوں کا پتہ چلتاہے تو حنفی مالکی اور شافعی اور جمہور علماء نے چہرے اور ہاتھ کی ہتھیلیوں کو کلائیوں تک ظاہر کرنے کو جائز قراردیا ہے۔ اور احناف نے قدموں کو دیکھنے کااس میں اضافہ کیا ہے اسی طرح حنابلہ نے ان سب جگہوں کو دیکھنا جائز قراردیا ہے جو عادتاََ ظاہر ہوتی ہوں جیسے ہاتھ ، چہرہ ، گردن ، پاؤں وغیرہ۔اور بعض نے تو عورت کو برہنہ سر دیکھنے کی بھی اجازت دی ہے ۔ اور اہلِ ظواہر نے تو ڈھکی چھپی چیز کو دیکھنے کو جائز قراردیاہے ۔ اور میرے نزدیک صحیح قول وہی ہے جو حنابلہ کا ہے ۔ جیسا کہ امام احمدؒ نے (۱۴۱۷۶) اور ابوداؤد ؒ نے (۲۰۸۲) نے حضرت جابر ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے منگنی کرے تو اگر وہ ہر اس چیز کی طرف دیکھ سکے جو اسے نکاح کی طرف راغب کرے تو کرلے‘‘۔ پس عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے منگیتر کے لئے وہ اعضاء ظاہر کرے جو وہ عادتاََ ظاہر کرتی ہے اگرچہ وہ برہنہ سر ہی کیوں نہ ہو۔
حامداََ ومصلیاََ۔۔۔
امابعد۔۔۔
اہل علم کے نزدیک اگر عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو اس کو دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ صحیح مسلم میں ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ْﷺنے ایک آدمی سے ارشاد فرمایاجس نے ایک عورت سے شادی کی تھی:’’کیا آپ نے اس عورت کو دیکھا ہے ؟‘‘اس نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ ﷺنے اس سے فرمایاکہ جاؤ اور اس کو دیکھ کر آجاؤ کیونکہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں نیلگی ہوتی ہیں ‘‘۔ اور لڑکے کے سامنے ظاہر ہونے کی مقدار میں اختلا ف ہے۔ اور چہرے کے دیکھنے میں تو سب کا اتفاق ہے ۔ کیونکہ چہرے سے ساری خوبیوں کا پتہ چلتاہے تو حنفی مالکی اور شافعی اور جمہور علماء نے چہرے اور ہاتھ کی ہتھیلیوں کو کلائیوں تک ظاہر کرنے کو جائز قراردیا ہے۔ اور احناف نے قدموں کو دیکھنے کااس میں اضافہ کیا ہے اسی طرح حنابلہ نے ان سب جگہوں کو دیکھنا جائز قراردیا ہے جو عادتاََ ظاہر ہوتی ہوں جیسے ہاتھ ، چہرہ ، گردن ، پاؤں وغیرہ۔اور بعض نے تو عورت کو برہنہ سر دیکھنے کی بھی اجازت دی ہے ۔ اور اہلِ ظواہر نے تو ڈھکی چھپی چیز کو دیکھنے کو جائز قراردیاہے ۔ اور میرے نزدیک صحیح قول وہی ہے جو حنابلہ کا ہے ۔ جیسا کہ امام احمدؒ نے (۱۴۱۷۶) اور ابوداؤد ؒ نے (۲۰۸۲) نے حضرت جابر ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے منگنی کرے تو اگر وہ ہر اس چیز کی طرف دیکھ سکے جو اسے نکاح کی طرف راغب کرے تو کرلے‘‘۔ پس عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے منگیتر کے لئے وہ اعضاء ظاہر کرے جو وہ عادتاََ ظاہر کرتی ہے اگرچہ وہ برہنہ سر ہی کیوں نہ ہو۔