کیا جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے یا اس کے لئے کوئی مخصوص وقت مقر رہے؟
وقت قراءة سورة الكهف
سوال
کیا جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے یا اس کے لئے کوئی مخصوص وقت مقر رہے؟
وقت قراءة سورة الكهف
جواب
جواب ملاحظہ ہو
جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کے مستحب ہونے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو کہ ابن عمر ، ابوسعید خدری ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور بہترین روایت بیہقی اور حاکم نے ابو سعید خدریؓ سے مرفوعاََ ذکر کی ہے :’’جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کی اس کے لئے اس جمعے سے اگلے جمعے تک نور ہی نور ہوگا‘‘۔ اور موقوف بھی روایت کی گئی ہے اور امام نسائی نے اسی موقوف روایت کی بھی تصحیح فرمائی ہے جیسا کہ حافظ بن حجر ؒنے تلخیص الحبیر میں (۷۲۱۲) میں ذکر کیا ، اور دارقطنی نے عللہ (۳۰۷/۱۱) میں کہا: اس حدیث کا موقو ف ہونا بالکل صواب ہے اور ابن قیم ؒ نے بھی زاد المعاد (۳۷۹/۱) میں اسی کو راجح کہا ہے اور ابن الملقن نے مرفوع روایت کی تصحیح کی ہے جیسا کہ البدر لمنیر(۲۹۲/۲) میں ہے ۔
لہٰذا صحیح قول یہ ہے کہ اس بارے میں نبی ﷺسے مرفوعاََ کچھ ثابت نہیں ۔ اور ا س کو حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ احادیث کو دیکھتے ہوئے استحباب ہی پرعمل کرتے ہیں اور یہی ان کا مذہب ہے اوربعض اہل علم ابوسعید خدریؓ والی حدیث کی بنیاد پر اسے مستحب کہتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ ایسا معاملہ ہے جس میں رائے کی گنجائش نہیں لہٰذ ا موقوف بھی مرفوع کے حکم میں ہی ہوگی اور یہی قول بہتر معلوم ہوتاہے ۔ واللہ أعلم۔
آپ کا بھائی
خالد بن عبد الله المصلح
08/04/1425هـ
جواب ملاحظہ ہو
جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کے مستحب ہونے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو کہ ابن عمر ، ابوسعید خدری ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور بہترین روایت بیہقی اور حاکم نے ابو سعید خدریؓ سے مرفوعاََ ذکر کی ہے :’’جس نے جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کی اس کے لئے اس جمعے سے اگلے جمعے تک نور ہی نور ہوگا‘‘۔ اور موقوف بھی روایت کی گئی ہے اور امام نسائی نے اسی موقوف روایت کی بھی تصحیح فرمائی ہے جیسا کہ حافظ بن حجر ؒنے تلخیص الحبیر میں (۷۲۱۲) میں ذکر کیا ، اور دارقطنی نے عللہ (۳۰۷/۱۱) میں کہا: اس حدیث کا موقو ف ہونا بالکل صواب ہے اور ابن قیم ؒ نے بھی زاد المعاد (۳۷۹/۱) میں اسی کو راجح کہا ہے اور ابن الملقن نے مرفوع روایت کی تصحیح کی ہے جیسا کہ البدر لمنیر(۲۹۲/۲) میں ہے ۔
لہٰذا صحیح قول یہ ہے کہ اس بارے میں نبی ﷺسے مرفوعاََ کچھ ثابت نہیں ۔ اور ا س کو حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ احادیث کو دیکھتے ہوئے استحباب ہی پرعمل کرتے ہیں اور یہی ان کا مذہب ہے اوربعض اہل علم ابوسعید خدریؓ والی حدیث کی بنیاد پر اسے مستحب کہتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ ایسا معاملہ ہے جس میں رائے کی گنجائش نہیں لہٰذ ا موقوف بھی مرفوع کے حکم میں ہی ہوگی اور یہی قول بہتر معلوم ہوتاہے ۔ واللہ أعلم۔
آپ کا بھائی
خالد بن عبد الله المصلح
08/04/1425هـ