حامداََ ومصلیاََ
امابعد
جمہور علماء اور محدثین و فقہاء کا مذہب تو یہ ہے کہ قرآن کا چھو نا صر ف پاک آدمی کے لئے جائز ہے اور ان کا استدلال ا س حدیث سے جس کو امام مالک ؒ نے عبداللہ بن ابی بکر کے طریق سے حر ام سے مرسلاََ نقل کی ہے کہ :’’اس خط میں جس کو اللہ کے رسول ﷺنے عمرو بن حرام کی طرف لکھا تھا( اس میں یہ تھا) کہ قرآن کو صرف پاک آدمی ہی چھو ئے ‘‘۔اور اصحاب سنت کے ہاں یہ حدیث موصولاََ روایت ہوئی ہے لیکن یہ موصولاََ درست نہیں ہے ، اگر چہ یہ روایت مرسل ہے مگریہ آپ ﷺکا عمرو بن حرام کی طرف لکھے ہوئے خط کا ایک ٹکڑ اہے اور یہ ایسا خط ہے جسے اہل علم نے قبولیت بخشی ہے ۔اور بعض علماء نے ناپاک کا قرآن کو چھونے کے عدمِ جواز پر استدلال کیا ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے (جس کا ترجمہ ہے )’’قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں‘‘۔لیکن صحیح یہی قول ہے کہ آیت محدث کو اشارہ اور تنبیہ کے ساتھ قرآن کو چھونے سے منع کررہی ہے جب وہ صحیفیں جو آسمان ہیں انہیں پاک لوگوں کے علاوہ کوئی چھونہیں سکتے تو اسی طرح جو صحیفہ ہمارے ہاتھ میں ہے یعنی قرآن تو چاہئے کہ اس کو بھی پاک لوگ ہی ہاتھ لگائے ۔ واللہ أعلم