امام مسلمؒ نے حضرت انسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے مسلمانوں میں سے ایک آدمی کی عیادت فرمائی جو کمزوری کی وجہ سے چُوزے کی طرح ہو گیا تھا، (جب اللہ کے رسول ﷺ نے اسے دیکھا) تو اس سے دریافت فرمایا : کیا تم کسی چیز کی دعا مانگا کرتے تھے ؟ اس نے عرض کی: جی ہاں میں یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ اے اللہ ! آخرت میں مجھے جو عذاب دینا ہے وہ دنیا ہی میں مجھے دے دے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے جب یہ سنا تو ارشاد فرمایا: سبحان اللہ ! (کیا کہنے تیرے) اللہ کے بندے تو اس کی طاقت کہاں رکھ سکتا ہے، اگر تم نے دعا مانگنی ہی تھی تو یہی کہتے کہ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی بہتری عطا فرما اور آخرت میں بھی ہمیں بہتری عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ راوی کہتا ہے کہ اس بعد اللہ کے رسولﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی تو وہ صحتیاب ہو گیا ۔ اب مجھے اس آدمی کے اس جملے (ما کنت معاقبی بہ فی الآخرۃ) سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جب آخرت میں عذاب کا ہونا لازمی ہے اور یہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے کہ اسے آخرت میں عذاب ہوگا تو دنیا میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے مجھے اس حدیث کے متعلق اشکال ہو گیا ہے وہ یہ کہ ذہن میں تو یہی آتا ہے کہ اس آدمی کے عذاب کا طلب کرنا ایک معقول امر ہے کہ اے اللہ جب آخرت میں مجھے عذاب دینا ہے تو دنیا میں ہی دے دے ، جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے کئی گناہ ہلکا ہے، اس لئے دنیا میں آپﷺ کے انکار کی وجہ مجھ پر ظاہر نہیں ہوئی لہٰذا آخرت میں پھر کیسے ہوگا ؟ کیا اس سے یہی مراد ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس آدمی سے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ دنیا میں عافیت طلب کرے اور آخرت میں اس کا مواجہ کرے جسکی طاقت مخلوق نہیں رکھ سکتی ؟ اس بارے میں ازارہِ کرم ہمیں فتوی دیں !
حديث (اللَّهُمَّ مَا كُنْتَ مُعَاقِبِي بِهِ فِي الْآخِرَةِ فَعَجِّلْهُ لِي فِي الدُّن