کیا یوم عرفہ کا روزہ ان گناہوں کو بھی معاف کردیتا ہے جن کی کھلم کھلا شہرت کی ہو ؟
هل صيام يوم عرفة يكفر الذنوب المجاهر بها ؟
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
فتاوی جات / روزه اور رمضان / کیا یوم عرفہ کا روزہ ان گناہوں کو بھی معاف کردیتا ہے جن کی کھلم کھلا شہرت کی ہو ؟
سوال
کیا یوم عرفہ کا روزہ ان گناہوں کو بھی معاف کردیتا ہے جن کی کھلم کھلا شہرت کی ہو ؟
هل صيام يوم عرفة يكفر الذنوب المجاهر بها ؟
جواب
اما بعد۔۔۔
اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ
بہرکیف گناہ کا اشتھار کرنا کبیرہ گناہوں اور عظیم نافرمانیوں میں سے ہے ۔
اور صحیحین میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (( میری ساریأمتکی معافی ہوجائگی )) یعنی کہ ساری کی ساری امت کے لیے امید ہے ۔ گناہوں کے آثار ،بدبختی اور دنیا و آخرت کے خطرات سے عافیت اور پاکی حاصل ہوجائگی ۔ ((الا)) استثناء کے لیے ہے (( المجاھرین )) مجاھرین کون ہے ؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : (( مجاھر وہ شخص جو گناہ کرتا ہے اور پھر اس حال میں رات گزارتا ہے کہ اللہ نے اسکے گناہ پر پردہ ڈالا ہوتا ہے پھر جب وہ صبح کرتا ہے تو اللہ کا پردہ اپنے آپ سے ہٹادیتاہے ۔ اور کہتا ہے کہ میں نے یہ کیاوہ کیا فلاں کیا ۔ اور کہتا ہے کے اسنے زنا کیا ہے چوری کی ہے جبکہ اللہ تعالی نے اس پر پردہ ڈالا تھا اور اسکی برائی کو چھپایا تھا لوگوں سے اور درحقیقت یہ فعل اس بات کی دلیل کہ دل میں نہ ایمان ہے اور نہ اللہ جل جلالہ کی عظمت ہے ۔ اور نہ اسکے دل میں لوگوں سے کوئی شرم و حیا ہے اور اگر اسکے دل میں حیا و ایمان ہوتا تو یہ کبھی بھی اپنی برائیاں ظاہر نہیں کرتا ۔
لیکن اگر حج ادا کرلے یا یوم عرفہ کا روزہ رکھلے توکیا ان گناہوں کا کفارہ ہوجایگا ؟
علماء میں سے کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ یقینا یہ نیک اعمال ان کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہیں بنتے جن پر انسان اصرار کرتا ہو ، اور اسی لیے اگر وہ شخص اس گناہ کا عادی ہے تو در اصل وہ مسلسل گناہ میں ہے ، اگرچہ اس کے گزشتہ گناہ معاف بھی یوجاے پھر بھی وہ سزا کا مستحق ٹہرتا ہے اگر وہ مسلسل اس گناہ کی شہرت کررہا ہے ، لیکن اگر اسنے ایک دفعہ گناہ کی شہرت کی اور پھر نصیحت حاصل کی اور نادم ہوا اور لوٹ آیا تو اس صورت میں یہ گناہ اس زمرہ میں ہوگا جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿اے نبیؐ کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور اور رحیم ہے﴾[الزمر:53].
پس کیا ہی عظیم شان ہے اس ذات کی جس کی مغفرت کے سامنے سارے گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور اس کی رحمت اور معافی کی سامنے نافرمانیاں اورغلطیاں نیست ہوجاتی ہے اور اسی لیے اللہ کی رحمت سے کویَی بھی مایوس نہیں ہوتا اگرچہ اس پر ایک مرحلہ کھلم کھلا گناہوں کا گزرا ہوکیونکہ یہ دوبارہ لوٹ آتا ہے اور توبہ تایَب ہوجاتا ہے ، اور اللہ تعالی محبت کرتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت کرتا ہے پاک رہنے والوں سے ۔
اما بعد۔۔۔
اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ
بہرکیف گناہ کا اشتھار کرنا کبیرہ گناہوں اور عظیم نافرمانیوں میں سے ہے ۔
اور صحیحین میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (( میری ساریأمتکی معافی ہوجائگی )) یعنی کہ ساری کی ساری امت کے لیے امید ہے ۔ گناہوں کے آثار ،بدبختی اور دنیا و آخرت کے خطرات سے عافیت اور پاکی حاصل ہوجائگی ۔ ((الا)) استثناء کے لیے ہے (( المجاھرین )) مجاھرین کون ہے ؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : (( مجاھر وہ شخص جو گناہ کرتا ہے اور پھر اس حال میں رات گزارتا ہے کہ اللہ نے اسکے گناہ پر پردہ ڈالا ہوتا ہے پھر جب وہ صبح کرتا ہے تو اللہ کا پردہ اپنے آپ سے ہٹادیتاہے ۔ اور کہتا ہے کہ میں نے یہ کیاوہ کیا فلاں کیا ۔ اور کہتا ہے کے اسنے زنا کیا ہے چوری کی ہے جبکہ اللہ تعالی نے اس پر پردہ ڈالا تھا اور اسکی برائی کو چھپایا تھا لوگوں سے اور درحقیقت یہ فعل اس بات کی دلیل کہ دل میں نہ ایمان ہے اور نہ اللہ جل جلالہ کی عظمت ہے ۔ اور نہ اسکے دل میں لوگوں سے کوئی شرم و حیا ہے اور اگر اسکے دل میں حیا و ایمان ہوتا تو یہ کبھی بھی اپنی برائیاں ظاہر نہیں کرتا ۔
لیکن اگر حج ادا کرلے یا یوم عرفہ کا روزہ رکھلے توکیا ان گناہوں کا کفارہ ہوجایگا ؟
علماء میں سے کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ یقینا یہ نیک اعمال ان کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہیں بنتے جن پر انسان اصرار کرتا ہو ، اور اسی لیے اگر وہ شخص اس گناہ کا عادی ہے تو در اصل وہ مسلسل گناہ میں ہے ، اگرچہ اس کے گزشتہ گناہ معاف بھی یوجاے پھر بھی وہ سزا کا مستحق ٹہرتا ہے اگر وہ مسلسل اس گناہ کی شہرت کررہا ہے ، لیکن اگر اسنے ایک دفعہ گناہ کی شہرت کی اور پھر نصیحت حاصل کی اور نادم ہوا اور لوٹ آیا تو اس صورت میں یہ گناہ اس زمرہ میں ہوگا جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿اے نبیؐ کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور اور رحیم ہے﴾[الزمر:53].
پس کیا ہی عظیم شان ہے اس ذات کی جس کی مغفرت کے سامنے سارے گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور اس کی رحمت اور معافی کی سامنے نافرمانیاں اورغلطیاں نیست ہوجاتی ہے اور اسی لیے اللہ کی رحمت سے کویَی بھی مایوس نہیں ہوتا اگرچہ اس پر ایک مرحلہ کھلم کھلا گناہوں کا گزرا ہوکیونکہ یہ دوبارہ لوٹ آتا ہے اور توبہ تایَب ہوجاتا ہے ، اور اللہ تعالی محبت کرتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت کرتا ہے پاک رہنے والوں سے ۔