×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / عاشورہ کا ایک روزہ رکھنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1967
- Aa +

سوال

عاشورہ کا ایک ہی روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

صوم عاشوراء مفردا

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

جمہورعلماء کے نزدیک جو شخص عاشوراء کا ایک روزہ رکھتا ہو، تو اس کو اس دن کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے یعنی ایک سال  گذشتہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

اورامام ابوحنیفہؒ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ عاشوراء کا ایک روزہ رکھنا مکروہ ہے اس حدیث کی رو سے لیکن ان کا ستدلال جن کو یہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ نبینے فرمایا: (اگرمیں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو [محرم] کا روزہ ضرور رکھوں گا) حقیقت میں اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں۔ کیونکہ ابن حزمؒ اورعلماء کی ایک جماعت یہ رائے رکھتے ہیں کہ نویں محرم کا ہی روزہ رکھا جائے اور دسویں کا نہ رکھا جائے۔ پس نبینے فرمایا: (کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تونویں [محرم] کاروزہ ضرور رکھوں گا) اور دسویں روزے کا ذکر نہیں فرمایا جس سے ابن حزمؒ اورایک جماعت اہل علم کی متقدمین میں سے یہی سمجھی کہ نویں کا روزہ ہے دسویں کا نہیں۔

اورصحیح یہ ہے کہ اس روزے میں سنت یہ ہے کہ نویں اور دسویں دونوں کا روزہ رکھے اور یہ کامل درجہ ہے اور ایک مومن کے لئے کہ وہ تمام احادیث کو جمع کرکے اس پر عمل پیرا ہو، اور یہی قول جمہور اہل علم کا ہے۔

لیکن اگر وہ صرف دسویں کا روزہ رکھے اور کوئییہ کہے کہ میں تو روزہ رکھنے کی ایک دن کے علاوہ کی طاقت نہیں رکھتا ، یا تو میں عاشوراء کا روزہ رکھوں گا یا بالکل رکھتا ہی نہیں۔ تو اس صورت حال میں ہم ان کو کہیں گے کہ آپ روزہ رکھے اور تو خیر پر ہے اوراگر اللہ کو منظور ہو تو تجھے  فضیلت مل جائے گی۔

اورجہاں تک اس حکم کی علت کا ہونا ہے تواس کی وجہ یہود ونصاریٰ کی مخالفت ہے اور یہ حکم  صرف اس روزے کےساتھ خاص نہیں ہے کہ صرف عاشوراء میں یہود کی مخالفت کرنا ہے، بلکہ جتنی بھی احادیث عموما اس بارے میں ہیں جن میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت کا آیا ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ ہر مخالفت واجب ہے اور نہ ہر موافقت حرام ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ نبینے فرمایا: ( یہود کی مخالفت کرو،اوراپنے جوتوں ہی میں نماز پڑھ لیا کرو) تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ نماز کا جوتوں میں ادا کرنا ہی واجب ہو یا کیا یہ اس بات کی دلیل ہوسکتی ہے کہ نماز ننگے پاوں پڑھنے کی حالت میں مکروہ ہو؟ اس کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں۔ لیکن یہ ان چیزوں میں سے ہیں جو مستحب اور پسندیدہ ہوتے ہیں۔ اوراس سے ہمارے لئے یہ  بھی بات واضح ہوتی ہے کہ ہرموافقت ان کے ساتھ  حرام بھی نہیں اور نہ ہر مخالفت ان کی واجب ہے اور نہ اس کا پسندیدہ ہونا ضروی ہے تو اس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مناسب یہی ہے کہ دوسرے نصوص میں آنے والی مخالفت اورموافقت کا مطلب سمجھا جائے۔

لہذا اصل بات یہ ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے اور اس کو کچھ اہل علم نے ذکر کیا ہیں جن میں ابن قیمؒ اورابن حجرؒ اور اہل علم کی ایک جماعت شامل ہے، یہاں تک کہ ابن سیرینؒ نے فرمایا: ایک دن اس سے پہلے اور ایک دن اس کے بعد روزہ رکھے۔ لیکن ابن سیرینؒ اوردیگر متقدمین نے یہ بات ذکر کی ہے اس حالت میں جب مہینے کے دنوں میں شک و شبہ ہو اور عاشورہ کے حصول کییقین دہانی کے لئے ہو۔ اور جہاں تک مہینہ واضح ہو جانے کی بات ہے کہ ذوالحجہ پورا ہوچکا ہو یا یہ معلوم ہو چکا ہو اور محرم کا چاند نظر آچکا ہو تو اس حالت میں سنت یہ ہے کہ صرف نویں اور دسویں کے روزے پرہی اکتفاء کیا جائے کیونکہ جو حدیث آئی ہے تین روزوں کے رکھنے کے بارے میں وہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث ہے جو کہ مسند امام احمد میں ہے: ( روزہ رکھو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں) اور ایک روایت میں ہے کہ (ایک دن پہلے اور ایک بعد میں) تو یہ حدیث ضعیف ہے جمہور اور محدثین محققین کے قول کے مطابق۔

تو روزے کا اعلیٰ مرتبہ یہ ہے صحیح قول کے مطابق کہ نویں اور د سویں کا روزہ رکھے پھر یہ کہ صرف دسویں کا رکھے اور یہی مراتب دلائلسے ثابت ہیں۔

جب انسان کسی علاقے میں ہو اور وہاں کوئی قول مشہور ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور قول بھی نہ جانی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے اقوال درست نہیں یا اس کے علاوہ کوئی اور قول ہی نہیں۔

تو اپنے بھائیوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ الحمد للہ نویں اور دسویں اور گیارویں  کا روزہ وہ نیکیوں میں سے ہیں کیونکہ محرم کا روزہ تمام روزوں میں سے افضل ہے رمضان کے بعد جیسا کہ صحیح حدیث ہے: جب نبیسے پوچھا گیا کہ کونسا روزہ افضل ہے رمضان کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا: (اللہ کا مہینہ محرم) تو مناسب ہے اس میں زیادتی کرنا لیکن ہم یہ بیان کریں گے کہ وہ فضیلت جس کا تعلق عاشوراء کے روزے سے ہیں یہ اس کو بھی حاصل ہوجاتی ہے جو اس دن کا روزہ الگ سے رکھے۔ اور مناسب  یہ ہے کہ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھے، نبیکے اس قول کی رو سے: ''اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو نویں کا روزہ ضرور رکھوں گا''۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں