رمضان میں سانس کی تنگی کے علاج کیلئے سپرے وغیرہ کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
استعمال البخاخ لعلاج ضيق التنفس في رمضان
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
فتاوی جات / روزه اور رمضان / رمضان میں سانس کی تنگی کے علاج کیلئے سپرے وغیرہ کا استعمال
سوال
رمضان میں سانس کی تنگی کے علاج کیلئے سپرے وغیرہ کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
استعمال البخاخ لعلاج ضيق التنفس في رمضان
جواب
حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
سانس کی تنگی کیلئے استعمال ہونے والے اسپرے مختلف ہوتے ہیں جن کی مختلف انواع ہیں: بعض ایسے ہیں جن میں پاؤڈر جس کو پیس کر سپرے والا آلہ میں ڈال کر استعمال ہوتا ہے اور پھر سپرے کیا جاتا ہے اور سانس لینے میں مدد دیتا ہے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں سائل (لیکوڈ) مواد پریشر سے ڈالا جاتا ہے، ان تمام صورتوں میں اسپرے کا طریقہ استعمال ہوتا ہے جس سے مواد سانس لینے میں یا تو منہ کے راستے یا ناک کے راستے مدد دیتا ہے، یا پھر ماسک کے ذریعے جن میں آکسیجن یا دوائی بخارات کی شکل میں ہوتی ہے، تو ان تمام صورتوں میں دور حاضر کے علماء کے دو قول ہیں:
علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ان صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے، وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس مواد کے اجزاء پیٹ میں پہنچ جاتے ہیں صرف سانس کی نالی میں نہیں رہتے، اور یہ بات تو معلوم ہے کہ جو معدہ تک پہنچ جائے اس سے جمہور علمائے حنابلہ، شافعیہ اور مالکیہ کے ہاں روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور حنفیہ کا بھی بالجملہ یہی مذہب ہے اور یہی قول اسلام کے جمہور علماء کا ہے کہ جو چیز جوف(معدہ) میں پہنچ جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
ان معاصر علماء فقہاء کی نظر میں مواد معدہ تک پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے روزہ ٹوٹنے کا حکم لگایا۔
علماء کی ایک دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ یہ مواد جو کہ معدہ، یا کھانے پینے کی نالی میں پہنچتا ہے یا پھیپڑوں میں جاتا ہے، سب سے پہلے یہ نہ تو کھانے کے تحت آتا ہے نہ ہی پینے کے اگرچہ اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ذائقہ اثر انداز نہیں ہوتا ، اسی وجہ سے کھانے کا چکھنا اگر صرف ذائقے کی حد تک ہو تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزہ صرف کھانے یا پینے سے ٹوٹتا ہے۔
لہذا یہ اسپرے وغیرہ اس دوسرے قول کے مطابق روزہ نہیں توڑتے، کھانے یا پینے کے تحت داخل نہ ہونے کی وجہ سے۔
دوسرا یہ کہ ان سے روزہ ٹوٹنے پر کوئی دلیل نہیں۔
تیسرا یہ کہ اصل روزہ کی صحت ہے، اور اگر اصل یہ ہے تو اس کو یقینی دلیل کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا اسی وجہ سے ان علماء کا کہنا ہے کہ ان اسپرے وغیرہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا جس صورت میں بھی ہوں، یہی رائے بہت سے معاصر فقہاء کی جماعات نے اختیار کی ہے ، جن میں مجمع الفقہ الاسلامی اور بہت سے فقہاء شامل ہیں اور یہی دونوں میں سے زیادہ راجح قول ہے۔
اور پہلا قول ذکر کرنے والے جنہوں نے کہا کہ یہ مواد جوف تک پہنچ جاتا ہے چاہے سینے تک پہنچے ، کھانے پینے کی نالی تک یا معدہ تک، ان کا جواب یہ ہے کہ جو جوف تک پہنچتا ہے وہ اس سپرے یا نالیوں کے ذریعے پہنچنے والے پاؤڈر کی بہت ہی کم مقدار ہے جو کہ قابل ذکر نہیں، اور وہ اتنی ہی مقدار ہے جتنی مقدار ہوا میں رطوبات کی ہوتی ہے، اور ایسے ہی ہے جیسے ماحول کی آلودگی اور غبار وغیرہ منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے، اس سے مقصود کھانا پینا یا تقویت کا حصول نہیں ہوتا، اسی وجہ سے اس کا روزہ توڑنے والے اسباب والا حکم نہیں ہو گا جیسے کھانے پینے کا حکم ہے، اور یہ دوسرا قول ہی دونوں میں زیادہ راجح ہے
حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
سانس کی تنگی کیلئے استعمال ہونے والے اسپرے مختلف ہوتے ہیں جن کی مختلف انواع ہیں: بعض ایسے ہیں جن میں پاؤڈر جس کو پیس کر سپرے والا آلہ میں ڈال کر استعمال ہوتا ہے اور پھر سپرے کیا جاتا ہے اور سانس لینے میں مدد دیتا ہے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں سائل (لیکوڈ) مواد پریشر سے ڈالا جاتا ہے، ان تمام صورتوں میں اسپرے کا طریقہ استعمال ہوتا ہے جس سے مواد سانس لینے میں یا تو منہ کے راستے یا ناک کے راستے مدد دیتا ہے، یا پھر ماسک کے ذریعے جن میں آکسیجن یا دوائی بخارات کی شکل میں ہوتی ہے، تو ان تمام صورتوں میں دور حاضر کے علماء کے دو قول ہیں:
علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ان صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے، وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس مواد کے اجزاء پیٹ میں پہنچ جاتے ہیں صرف سانس کی نالی میں نہیں رہتے، اور یہ بات تو معلوم ہے کہ جو معدہ تک پہنچ جائے اس سے جمہور علمائے حنابلہ، شافعیہ اور مالکیہ کے ہاں روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور حنفیہ کا بھی بالجملہ یہی مذہب ہے اور یہی قول اسلام کے جمہور علماء کا ہے کہ جو چیز جوف(معدہ) میں پہنچ جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
ان معاصر علماء فقہاء کی نظر میں مواد معدہ تک پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے روزہ ٹوٹنے کا حکم لگایا۔
علماء کی ایک دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ یہ مواد جو کہ معدہ، یا کھانے پینے کی نالی میں پہنچتا ہے یا پھیپڑوں میں جاتا ہے، سب سے پہلے یہ نہ تو کھانے کے تحت آتا ہے نہ ہی پینے کے اگرچہ اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ذائقہ اثر انداز نہیں ہوتا ، اسی وجہ سے کھانے کا چکھنا اگر صرف ذائقے کی حد تک ہو تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، روزہ صرف کھانے یا پینے سے ٹوٹتا ہے۔
لہذا یہ اسپرے وغیرہ اس دوسرے قول کے مطابق روزہ نہیں توڑتے، کھانے یا پینے کے تحت داخل نہ ہونے کی وجہ سے۔
دوسرا یہ کہ ان سے روزہ ٹوٹنے پر کوئی دلیل نہیں۔
تیسرا یہ کہ اصل روزہ کی صحت ہے، اور اگر اصل یہ ہے تو اس کو یقینی دلیل کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا اسی وجہ سے ان علماء کا کہنا ہے کہ ان اسپرے وغیرہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا جس صورت میں بھی ہوں، یہی رائے بہت سے معاصر فقہاء کی جماعات نے اختیار کی ہے ، جن میں مجمع الفقہ الاسلامی اور بہت سے فقہاء شامل ہیں اور یہی دونوں میں سے زیادہ راجح قول ہے۔
اور پہلا قول ذکر کرنے والے جنہوں نے کہا کہ یہ مواد جوف تک پہنچ جاتا ہے چاہے سینے تک پہنچے ، کھانے پینے کی نالی تک یا معدہ تک، ان کا جواب یہ ہے کہ جو جوف تک پہنچتا ہے وہ اس سپرے یا نالیوں کے ذریعے پہنچنے والے پاؤڈر کی بہت ہی کم مقدار ہے جو کہ قابل ذکر نہیں، اور وہ اتنی ہی مقدار ہے جتنی مقدار ہوا میں رطوبات کی ہوتی ہے، اور ایسے ہی ہے جیسے ماحول کی آلودگی اور غبار وغیرہ منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے، اس سے مقصود کھانا پینا یا تقویت کا حصول نہیں ہوتا، اسی وجہ سے اس کا روزہ توڑنے والے اسباب والا حکم نہیں ہو گا جیسے کھانے پینے کا حکم ہے، اور یہ دوسرا قول ہی دونوں میں زیادہ راجح ہے