واجب روزے میں نیت کو متعین کرنے کا کیا حکم ہے؟
تعيين النية في الصيام الواجب
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
فتاوی جات / روزه اور رمضان / واجب روزے میں نیت کی تعین کرنا
سوال
واجب روزے میں نیت کو متعین کرنے کا کیا حکم ہے؟
تعيين النية في الصيام الواجب
جواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
واجب کی کئی قسمیں ہیں: اگر عورت کے ذمے گزرے ہوئے کئی سالوں کی قضاء ہو، جیسا کہ گذشتہ رمضان کے روزے اور اس سے پہلے سال کے روزے اور ایک سال اس سے پہلے کے، اس طرح کئی سالوں کے ہو تو یہاں اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ یہ کہے کہ یہ فلاں سال کی قضاء ہے اور یہ فلاں کی کیونکہ سب کی جنس ایک ہے۔۔ اور اگر واجب کی جنس مختلف ہو جیسا کہ نذر یا کفارہ یا رمضان کی قضاء ہو تو اس وقت مومن پر واجب ہے کہ وہ اس روزے کی خاص نیت کرے جس کو وہ رکھنا چاہتا ہے، نبیﷺکے اس قول کے مطابق: (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) اسی طرح مثال کے طور پر کوئی ظہر اور عصر دونوں کو جمع کرنے کے لئے کھڑا ہو گیا تو اس وقت وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں صرف واجب پڑھ رہا ہو اور بس ۔ جب کوئی ان دونوں کو جمع کرے تو ظہر پہلے پڑھے گا اور پھر عصر اور پہلے وہ نیت ظہر کی کرے گا اور بعد میں عصر کی ۔ اور اگر یہ قضاء نمازیں ہو تو نیت ظہر کی بھی کرے گا اور عصر کی بھی اور صرف اس پر اکتفا نہیں کرے گا کہ یہ چار رکعات عصر یا ظہر کے لئے ہے، لہذا متعین کرنا ضروری ہے ۔
تو جب جنس مختلف ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا: قضاء، نذر، کفارہ، تو حد بندی ضروری ہے اور جہاں تک یہ بات ہے کہ جنس ایک ہو اور اسباب مختلف ہو جیسا کہ مثلا کسی نے بار بار نذ ر مانے یا ایک نذر ابھی مانا اورایک اس سے پہلے کا تھا یا اسی طرح گذشتہ سال کے روزوں کی قضاء اور اس سے پہلے سال کی قضاء کا ارادہ ہو تو اس صورت میں اتنی نیت کافی ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ قضاء ہے اوراس میں کسی حد بندی کی ضرورت نہیں ۔
اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ جو عمل پہلے کر چکا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا جب اس نے کسی کی بات کی وجہ سے ایسا کیا ہو کہ وجوب کی نیت ہی کافی ہے ۔ لیکن آئندہ یہ حد بندی اور تعین کرنا ضروری ہوگا تاکہ اس کا ذمہ یقینی طور پر بری ہو جائے ۔
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
واجب کی کئی قسمیں ہیں: اگر عورت کے ذمے گزرے ہوئے کئی سالوں کی قضاء ہو، جیسا کہ گذشتہ رمضان کے روزے اور اس سے پہلے سال کے روزے اور ایک سال اس سے پہلے کے، اس طرح کئی سالوں کے ہو تو یہاں اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ یہ کہے کہ یہ فلاں سال کی قضاء ہے اور یہ فلاں کی کیونکہ سب کی جنس ایک ہے۔۔ اور اگر واجب کی جنس مختلف ہو جیسا کہ نذر یا کفارہ یا رمضان کی قضاء ہو تو اس وقت مومن پر واجب ہے کہ وہ اس روزے کی خاص نیت کرے جس کو وہ رکھنا چاہتا ہے، نبیﷺکے اس قول کے مطابق: (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) اسی طرح مثال کے طور پر کوئی ظہر اور عصر دونوں کو جمع کرنے کے لئے کھڑا ہو گیا تو اس وقت وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں صرف واجب پڑھ رہا ہو اور بس ۔ جب کوئی ان دونوں کو جمع کرے تو ظہر پہلے پڑھے گا اور پھر عصر اور پہلے وہ نیت ظہر کی کرے گا اور بعد میں عصر کی ۔ اور اگر یہ قضاء نمازیں ہو تو نیت ظہر کی بھی کرے گا اور عصر کی بھی اور صرف اس پر اکتفا نہیں کرے گا کہ یہ چار رکعات عصر یا ظہر کے لئے ہے، لہذا متعین کرنا ضروری ہے ۔
تو جب جنس مختلف ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا: قضاء، نذر، کفارہ، تو حد بندی ضروری ہے اور جہاں تک یہ بات ہے کہ جنس ایک ہو اور اسباب مختلف ہو جیسا کہ مثلا کسی نے بار بار نذ ر مانے یا ایک نذر ابھی مانا اورایک اس سے پہلے کا تھا یا اسی طرح گذشتہ سال کے روزوں کی قضاء اور اس سے پہلے سال کی قضاء کا ارادہ ہو تو اس صورت میں اتنی نیت کافی ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ قضاء ہے اوراس میں کسی حد بندی کی ضرورت نہیں ۔
اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ جو عمل پہلے کر چکا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا جب اس نے کسی کی بات کی وجہ سے ایسا کیا ہو کہ وجوب کی نیت ہی کافی ہے ۔ لیکن آئندہ یہ حد بندی اور تعین کرنا ضروری ہوگا تاکہ اس کا ذمہ یقینی طور پر بری ہو جائے ۔