×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / روزہ دار کا افطار کے وقت داخل ہونے میں شک ہونا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1158
- Aa +

سوال

اگر روزہ دار کو افطاری کے وقت میں شک ہو یعنی غروب آفتاب میں ۔ اور یہ شک اذان کے مختلف اوقات میں ہونے کی وجہ سے ہو، کہ کوئی تو ان میں سے جلدی اذان دیتا ہے اور کوئی دیر سے یا پھر کسی اور وجہ سے ایسا ہو، تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟

شك الصائم في دخول وقت الإفطار

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

میں نہیں جانتا کہ حقیقت میں اس میں شک کرنے کی بنیاد کیا ہے؟ اگر شک اس معنی میں ہو کہ اسے تردد ہو کہ کیا سورج غائب ہوچکا ہے یا نہیں؟ تو اس حال میں افطار کرنا جائز نہیں جب تک اسے یقین نہ ہو کہ سورج غروب ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی رو سے: (کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ واضح نہ ہوجائے کالا دھاگہ سفید دھاگے سے یعنی فجر سے پھر اس کے بعد روزہ پورا کرو رات تک) [البقرۃ:۱۸۷] ۔ اور اگر رات کے داخل ہونے میں شک ہو تو وہ روزے پر ہی باقی رہے گا یہاں تک رات کا یقین ہو جائے اور یہ یقین تب ہی ہوگا جب سورج کی ٹکیہ نظر سے اوجھل ہو جائے اور سورج کا اوپر والا کنارہ غائب ہو جائے، تو جب اوپر والا کنارہ غائب ہو جائے تو روزہ دار افطار کرلے جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا: (جب دن واپس چلے یہاں سے) اور وہ غروب آفتا ب اور اس کے ساقط یونے سے ہوگا (اور رات آجائے یہاں سے اور سورج غائب ہو جائے) یعنی گر جائے (تو روزہ دار افطار کرلے) اور اس طرح سے سورج کا گرنا افطار کو جائز کردیتا ہے۔

اور وہ لوگ جو شہروں میں ہوتے ہیں تو وہ لوگ وہاں اذانوں کی پیروی کرتے ہیں، لہذا جب کسی موذن کی اذان پرافطار کرے تو اس کے ذمہ جو تھا وہ ادا ہو جاتا ہے البتہ اگر  اس کو معلوم ہوجائے کہ یہ اذان اس نے غلط وقت پر دی ہے مثؒلا اگر کسی موذن نے اذان دس منٹ پہلے دے دی اور اس طرح ہوتا رہتا ہے یا پھر قریب قریب شہروں میں  ایسا ہوتا ہے جیسے جدہ اور مکہ اور اس طرح مدینہ میں بعض اوقات ہوتا ہے یعنی وہاں قریب ہونے کی وجہ سے بعض موذنین کو شہر کی اذان میں منٹس کے اعتبار سے وہم ہوجاتا ہے جیسا کہ کوئی جدہ میں ہے اور مکہ کے وقت کے مطابق اذان دیتا ہے یا مدینہ میں ہو اور وہ حرم مکی کے وقت کے مطابق اذان دیتا ہو تو اس صورت میں اذان دینے والے کے اذان میں سوچ و بچار واجب ہے اور اگر موذن اذان وقت پر دیتا ہے اور وہ ایک منٹ ہو تو وہ افطارکرلے ۔ اور جب موذن غلطی کرے یا جانتا ہو کہ اس نے اذان آگے دے دی یا اس پر یہ مشتبہ ہو گیا کہ اس نے اذان پہلے دی ہے تو وہ تحری یعنی اندازہ لگائےگا یہاں تک کہ اس کو یقین ہو جائے کہ سورج غروب ہوچکا ہے ۔

اور اگر کسی نے موذن کے اذان سے افطار کرلیا اور اس کو پتہ بھی ہو کہ موذن وقت پر اذان دیتا ہے لیکن کسی دن اس سے غلطی ہوئیتو اس پر کوئی حرج نہیں، لیکن جیسے اس کوعلم ہو تو امساک کرے مطلب یہ کہ جب وہ اس گمان سے افطار کرے کہ رات شروع ہو چکی ہے اور سورج غروب ہو چکا ہے پھر بعد میں واضح ہوا کہ سورج غروب نہیں ہوا تو اس حالت میں جب اس کے سامنے دن کا باقی رہنا واضح ہو جائے تو اس کے ذ مہ امساک کرنا لازم ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے ۔

اور کیا وہ اس کی جگہ دوسرے دن قضاء کرے گا؟ نہیں، اس کی جگہ قضاء نہیں کرے گا جیسا کہ اسماء بنت ابی بکرؓ کی حدیث میں ہے: (ہم نے نبیﷺکے زمانہ میں بادلوں والے دن افطار کیا پھر سورج طلوع ہوا) انہوں نے اس میں قضاء کا ذکر نہیں کیا ۔ اور جو ایک روایت میں آیا ہے: (یا قضاء ضروری ہے) یعنی یہ کہ اس کی قضاء ضروری ہے تو یہ کسی راوی کا قول ہے اور اسماءؓ کے کلام میں سے نہیں ۔ اور نہ نبیﷺنے ان کو قضاء کا حکم دیا، اس وجہ سے کہ جو بھی روزہ توڑنے والی چیزوں میں سے کسی ایک میں بھی مبتلا ہو جائےوہ چاہے جہل یا بھول سے یا مجبور ہو کر مبتلا ہو جائے تو یہ اس کے روزے کی صحت میں کسی طرح بھی اثر انداز نہیں ہوتا، اللہ کے اس فرمان کے مطابق: (اے ہمارے رب اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو اس پر ہماری گرفت نہ فرمائے)ّ [البقرۃ:۲۸۶] اور نبیﷺکا فرمان بھی ہے: (جو بھولا اور اس نے روزے کی حالت میں کھایا تو اس کو چاہیئے کہ وہ روزہ پورا کرے کیونکہ اللہ نے اس کو کھلایا پلایا ہے) ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں