×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​فتاوی امریکہ / عبادت کیا ہے؟ اور حدیث قدسی میں نبی ﷺ کے قول’’اور اس کا ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے‘‘ کا کیا مطلب ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3182
- Aa +

سوال

تمام مخلوقات کیلئے سور پھونکے جانے کے اعتبار سے نفخہ صعق (بے ہوش کرنے والے نفخہ) اور نفخہ بعث (دوبارہ زندہ کئے جانے والے نفخہ) کے درمیان کتنا زمانی فاصلہ ہو گا؟عبادت کیا ہے؟ اور حدیث قدسی میں نبی ﷺ کے اس قول کا کیا مطلب ہے’’مجھے سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ میرا بندہ جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اس کے ذریعے میرے قریب ہو، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘؟

ما هي العبادة؟ وما معنى قول النبي في الحديث القدسي ويده التي يبطش بها ما مقدار المدَّة بين نفخة الصَّعق ونفخة البعث لجميع الخلائق؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

عبادت ایک جامع اسم ہے جس میں اقوال ، ظاہری افعال اور باطنی افعال جو اللہ تعالی کو پسند ہیں اور جن سے اللہ راضی ہوتا ہے سب شامل ہیں، لہذا نماز، روزہ، زکاۃ، حج اورذکر جیسے تسبیح، استغفار اور تلاوت قرآن یہ سب عبادات ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اللہ سے امید ، اس پر توکل ، اس کی طرف رجوع ، اس سے محبت اور خوف دعاء اس سے مدد طلب کرنا یہ سب قلبی عبادات (دل کی عبادت) ہیں اس سے بھی اللہ کہ عبادت ہی کہ جاتی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں نفع مند بندہ ہی ہوتا ہے کیونکہ عبادت کے ذریعے دنیا اور آخرت کی خوشبختی حاصل کی جاتی ہے، جہاں تک اللہ تعالی کی ذات کا تعلق ہے تو وہ بالکل غنی اور بے نیاز ہے اسے ہماری عبادت کی ضرورت نہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اور قابل تعریف ذات ہے)) [فاطر:۱۵] ، حدیث قدسی میں نبینے فرمایا: ((اللہ تعالی کہتے ہیں:اے میرے بندو! تم ہرگز مجھے نقصان پہنچانے کے در پے آکر مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے، اور تم مجھے ہر گز نفع پہنچانے کے در پر آکر مجھے فائدہ نہیں دے سکتے، اے میرے بندو! اگر تم میں سے سب سے پہلے سے لے کر آخری تک، جن ہوں یا انسان یہ سب تم میں سے سب سے زیادہ تقوی والے  بندے کے دل کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں ہوتی، اور اگر تم میں سے سب سے پہلے سے لے کر آخری شخص تک، جن بھی انسان بھی تم میں سے سب سے زیادہ نافرمان بندے کے دل کی طرح ہو جائیں اس سے میرے ملک میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آتی)) رواہ مسلم، لیکن یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں کو نفع پہنچانے اور ان سے ضرر کو دور کرنے کی کمال محبت اور اعلی درجے کا احسان و اکرام ہے کہ اس نے اپنے بندوں میں اس بات کو پسند کیا کہ وہ اس کی عبادت کریں اس کی معرفت حاصل کریں اس کی اطاعت کریں اور اسی سے ڈریں،لہذا ہمیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا ہمیں عبادت کا حکم دینا یہ ہماری ہی اصلاح اور ہماری ہی خوش بختی کیلئے ہے، تمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں۔

اور جہاں تک حدیث کا تعلق ہے جس کا آپ نے مطلب پوچھا ہے تو یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے اور اس کا معنی بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ: اللہ تعالی اپنے بندوں کو بتا رہے ہیں کہ سب سے پسندیدہ عمل جس کے ذریعے اللہ کے قریب ہوا جا سکتا ہے وہ ہے جو اس نے ہم پر فرض کر دیا ہے، پھر یہ کہ اللہ کی رضامندی کا طلبگار اللہ کے قریب نوافل کے ذریعے ہوتا چلا جاتا ہے، نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض نہیں ہیں، یہاں تک کہ اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اس عظیم مرتبے پر پہنچ جاتا ہے یعنی اسے اللہ کی محبت نصیب ہو جاتی ہے اور اللہ کی طرف سے اسے توفیق ملنے لگتی ہے اور اللہ رب العزت کی راہنمائی اسے اپنے احاطے میں لے لیتی ہے، اس وقت میں اس کا سننا، اس کا دیکھنا، اس کا چلنا اس کا پکڑنا نیز اس کی تمام حرکات اللہ کیلئے ہو جاتی ہیں پورے اخلاص کے ساتھ اور اتباع کی نیت سے اور وہ اللہ ہی سے اعانت طلب کرتا ہے: ((ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں)) [الفاتحہ:۵]، اب اگر یہ اللہ سے سؤال کرتا ہے اللہ جواب دیتے ہیں، پناہ مانگتا ہے اللہ پناہ دیتے ہیں اور یہ محض اللہ کا فضل ہے اور وہ جس کو چاہے اپنا فضل عطا کرے، تو اس حدیث کے اس حصے کا مطلب: ((میں اس کا کان بن جاتا یوں، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں))  یہ ہے کہ میں اس کی آنکھ کان کو سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہوں،لہذا وہ وہی دیکھتا ہے جو اللہ کو راضی کرے، وہی سنتا ہے جو اس کی رضا کا سبب ہو، اور چلتا اور پکڑتا بھی اللہ کی رضا کیلئے ہی ہے، پس اس کا ہر عمل اللہ کیلئے ہوتا ہے پورے اخلاص اور طلب کے ساتھ، حکم کو بجا لاتا ہے اور ممنوع چیز کو ترک کر دیتا ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں