دنیا کی زندگی کو لہو و لعب (کھیل کود) سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے؟
لماذا وُصِفت الحياةُ الدُّنيا بأنَّها لعب ولهو؟
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
فتاوی جات / فتاوی امریکہ / دنیا کی زندگی کو لہو و لعب (کھیل کود) سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے؟
سوال
دنیا کی زندگی کو لہو و لعب (کھیل کود) سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے؟
لماذا وُصِفت الحياةُ الدُّنيا بأنَّها لعب ولهو؟
جواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
دنیا کی زندگی کا لہو و لعب ہونا یہ اس کی جنس کے اعتبار سے کہا گیا ہے، اور اس وجہ سے زیادہ تر مشغولیت والے اعمال اس دنیا میں لہو و لعب والے ہی ہوتے ہیں ، یہ نام اغلبیت کی وجہ سے دیا گیا ہے، اور جہاں تک نیک اور تقوی والے لوگوں کے نیک اعمال اور طاعات کا تعلق ہے تو وہ اس لہو و لعب کے زمرے میں نہیں، بلکہ یہ تو حقیقی زندگی ہے اور ہمیشہ کی سعادت ہے اس شخص کیلئے جسے اللہ تعالی توفیق عطاء فرمائیں، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے فرمایا: ((دنیا کی زندگی لہو و لعب کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کیلئے جو تقوی رکھتے ہیں تو کیا تم عقل نہیں رکھتے)) [الانعام:۳۲]، لہذا اس سے پتا چلتا ہے کہ متقین کے اعمال لہو و لعب کی قبیل سے نہیں ہیں بلکہ یہ تو دار آخرت حاصل کرنے کے اسباب میں سے ہے، وہ گھر جس کو اللہ تعالی نے زندہ گھر کا نام دیا ہے: ((اور اخرت کا گھر سراپائے زندگی ہے اگر یہ لوگ جانتے ہیں)) [العنکبوت:۶۴]، اور ایسے لوگوں کی دنیا کی زندگی کو اللہ تعالی نے پاگیزہ زندگی کا نام دیا ہے، فرمایا: ((جو کوئی بھی مرد ہو یا عورت حالت ایمان میں نیک عمل کرے تو ہم سے ضرور بالضرور پاکیزہ زندگی عطاء کریں گے اور ہم انہیں ان کے اجر جیسے وہ عمل کرتے تھے اس سے بہتر کر کے عطا کریں گے)) [النحل:۹۷]، ابن کثیر ؒ نے اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے(۵۲۰/۴): ’’یہ اللہ کی طرف سے وعدہ ہے اس شخص کیلئے جس نے نیک عمل کئے، ایسے عمل جو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق ہوں، اس حالت میں کہ اس کا دل اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اور یہ کہ یہ عمل جس کا حکم دیا گیا ہے اللہ کے ہاں مشروع ہے اس حیثیت سے کہ اللہ اس کے بدلہ میں اچھی دنیوی زندگی دیں گے اور دار آخرت میں بہترین اجر دیں گے‘‘۔ واللہ اعلم
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
دنیا کی زندگی کا لہو و لعب ہونا یہ اس کی جنس کے اعتبار سے کہا گیا ہے، اور اس وجہ سے زیادہ تر مشغولیت والے اعمال اس دنیا میں لہو و لعب والے ہی ہوتے ہیں ، یہ نام اغلبیت کی وجہ سے دیا گیا ہے، اور جہاں تک نیک اور تقوی والے لوگوں کے نیک اعمال اور طاعات کا تعلق ہے تو وہ اس لہو و لعب کے زمرے میں نہیں، بلکہ یہ تو حقیقی زندگی ہے اور ہمیشہ کی سعادت ہے اس شخص کیلئے جسے اللہ تعالی توفیق عطاء فرمائیں، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے فرمایا: ((دنیا کی زندگی لہو و لعب کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کیلئے جو تقوی رکھتے ہیں تو کیا تم عقل نہیں رکھتے)) [الانعام:۳۲]، لہذا اس سے پتا چلتا ہے کہ متقین کے اعمال لہو و لعب کی قبیل سے نہیں ہیں بلکہ یہ تو دار آخرت حاصل کرنے کے اسباب میں سے ہے، وہ گھر جس کو اللہ تعالی نے زندہ گھر کا نام دیا ہے: ((اور اخرت کا گھر سراپائے زندگی ہے اگر یہ لوگ جانتے ہیں)) [العنکبوت:۶۴]، اور ایسے لوگوں کی دنیا کی زندگی کو اللہ تعالی نے پاگیزہ زندگی کا نام دیا ہے، فرمایا: ((جو کوئی بھی مرد ہو یا عورت حالت ایمان میں نیک عمل کرے تو ہم سے ضرور بالضرور پاکیزہ زندگی عطاء کریں گے اور ہم انہیں ان کے اجر جیسے وہ عمل کرتے تھے اس سے بہتر کر کے عطا کریں گے)) [النحل:۹۷]، ابن کثیر ؒ نے اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے(۵۲۰/۴): ’’یہ اللہ کی طرف سے وعدہ ہے اس شخص کیلئے جس نے نیک عمل کئے، ایسے عمل جو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق ہوں، اس حالت میں کہ اس کا دل اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو، اور یہ کہ یہ عمل جس کا حکم دیا گیا ہے اللہ کے ہاں مشروع ہے اس حیثیت سے کہ اللہ اس کے بدلہ میں اچھی دنیوی زندگی دیں گے اور دار آخرت میں بہترین اجر دیں گے‘‘۔ واللہ اعلم