×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / کیا زکوٰۃ میں سے قرضہ شمار کرنا جائز ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1431
- Aa +

سوال

کیا زکوٰۃ میں سے قرضہ شمار کرنا جائز ہے؟

هل يجوز احتساب الدَّيْن من الزكاة؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

انسان کے دوسروں کے اوپر جو قرضے ہوتے ہیں تو اس کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں:

پہلا قول اہل علم میں سے ایک بڑی جماعت کا یہ ہے کہ اس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ، اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدمی جس قرض کا لوگوں سے مطالبہ کرتا ہے کیا وہ زکوٰۃ میں سے شمار کرے گا بایں صورت کہ وہ تنگدست ہوں یا ادئیگی پر قادر نہ ہوں؟

اس کے جواب میں اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس کو زکوٰۃ میں سے شمار کرنا جائز نہیں ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : ’’اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے (اللہ کے نام پر) خرچ کرو ، اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے بطور رزق کے نکالا ہے (اس میں سے بھی خرچ کرو) اور خرچ کے دوران خبیث (ردی وگھٹیا) مال دینے کا ارادہ نہ رکھو‘‘ {البقرہ: ۲۶۷}۔ اورآیتِ مبارکہ میں (خبیث مال) سے مراد حرام مال نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اچھے مال سے کم درجہ کا مال ہے ، اور یہ بات سب پر آشکار ہے کہ دَین اصحابِ دَین کی نظر میں ان کے ہاتھ میں بقیہ مال سے کم درجہ ہوتا ہے ، لہٰذا اس اعتبار سے یہ دَین بھی خبیث مال کے تحت داخل ہوتا ہے ، اور خاص کر جب اس کی واپسی کی کوئی امید بھی نظر نہ آتی ہو، پس اس حال میں دَین کی قیمت اصحابِ دَین کی نظر میں ان کے ہاتھ میں بقیہ مال سے کم درجہ ہوتا ہے ، لہٰذا ایک آدمی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر کسی کے اوپر اس کا قرضہ ہے تو وہ اسی میں سے زکوٰۃ ادا کرے کیونکہ اس طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کے بقول خبیث مال میں سے ہوگا۔

اس لئے اکثرعلماء کا یہی کہنا ہے کہ دَین میں سے زکوٰۃ نکالنے کو زکوٰۃ کا جز شمار کرنا جائز نہیں ہے ، اور بعض اہل علم جن میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ سرِ فہرست ہیں فرماتے ہیں کہ دَین کو بھی زکوٰۃ ہی میں سے شمار کیا جائے گا، یعنی : اگر میں آپ سے مثال کے طور پر ایک لاکھ ریال کا مطالبہ کروں تو اس کی زکوٰۃ ڈھائی ہزار بنتی ہے ، اور میں زکوٰۃ کے لئے ایک فقیر تلاش کرتا ہوں یا مثال کے طور پر آپ فقیر ہوں تو اس حال میں اس دَین کو زکوٰۃ میں سے شمار کروں گا، اور میری زکوٰۃ دس ہزار ریال ہیں اور دَین کی زکوٰۃ وہ ڈھائی ہزار ہیں اور وہ دَین آپ پر ہے اور میں اسے زکوٰۃ شمار کروں گا چاہے وہ دَین آپ پر ہو یا کسی اور پر ، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے اسی کو اختیار کرتے ہوئے فرمایا ہے : کہ یہاں خبیث مال کا ارادہ نہیں پایا جارہا، لیکن جمہور علماء کے نزدیک اس صورت میں بھی جائز نہیں ہے ۔

لہٰذا انسان کے لئے أقرب و أسلم اور اشتباہ سے بعید یہی ہے کہ وہ اسی مال سے زکوٰۃ نکالے جو اس کے قبضہ میں ہو اور جس پر اس کو مکمل طور پر تصرف حاصل ہو، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے (اللہ کے نام پر) خرچ کرو اور جو ہم نے زمین سے تمہارے لئے بطور رزق کے نکالا ہے (اس میں سے بھی اللہ کے نام پر خرچ کرو) اور جو تم خرچ کر رہے ہو اس میں سے خبیث (ردی اور گھٹیا) مال کا ارادہ نہ کرو اور تم اس کو کمی کرائے بغیر نہیں لوگے اور یہ خوب جان لو اللہ سب سے بے نیاز ہے اور وہ قابل ستائش و تعریف ہے‘‘ {البقرہ:۲۶۷}۔ پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سے اور ہمارے صدقات و خیرات سے مستغنی اور بے نیاز ہے ، اور ہم اپنے اموال میں سے جو بھی بطور زکوٰۃ یا صدقہ خیرات کے خرچ کرتے ہیں تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کرتے ہیں ۔

اس معرکۃ الآراء مسئلہ میں یہی اہل علم کے بیسیوں آراء و اقوال تھے اور میرے خیال میں اتنی وضاحت کافی ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں