×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / جہالت یا سستی کی وجہ سے یتیم کے مال کی زکوٰۃ چھوڑنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1455
- Aa +

سوال

اگر کوئی جہالت یا سستی کی وجہ سے یتیم کے مال کی زکوٰۃ چھوڑ دے تو اس کا کیا حکم ہے؟

ما حكم مَن ترك زكاة مال اليتيم جهلاً أو تكاسلاً؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

علماء کے أصح اور أرجح قول کے مطابق یتیموں کے مال میں بھی صدقہ و زکوٰۃ واجب ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان یتیموں کے اموال میں سے زکوٰۃ لو تاکہ یہ زکوٰۃ ان کو پاک وصاف کرے‘‘ {التوبۃ: ۱۰۳}۔ اور زکوٰۃ اموال میں ہی ہوتی ہے ۔

اور بیہقی میں حضرت عمرؓ کا قول مروی ہے: ’’یتیموں کے جن اموال کو زکوٰۃ نے نہ کھایا ہو تو ان میں کمائی تلاش کرو‘‘۔

اور حضرت انس اور جابر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں تو اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ اللہ کے رسولنے ارشادفرمایا: ’’یتیموں کے جن اموال کو زکوٰۃ نے نہ کھایا ہوتو ان میں تجارت کرو‘‘۔

حضرت عمرؓ والی حدیث ان کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے لیکن پھر بھی کثرتِ طرق اور کثرتِ مخارج کی وجہ سے اس کی سند میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔

لہٰذا ان دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ یتیموں کے مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہے ، پس اگر اس حالت میں جہالت کی وجہ سے زکوٰۃ نہ نکالے تو اس جہالت کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، لیکن اس یتیم کے سرپرست کو چاہئے کہ جو زکوٰۃ اس سے رہ گئی ہے تو اس کو ادا کرلے ، اس لئے کہ اس کے ساتھ فقراء اور غریب لوگوں کا حق وابستہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان یتیموں کے اموال میں سے زکوٰۃ لو یہ زکوٰۃ ان کو پاک وصاف کردے گی‘‘۔ پس اموال میں فقراء کا حق ہوتا ہے ، اور یہ سال کے گزرنے کے ساتھ اس مال پر ثابت ہوگیا ہے جس میں زکوٰۃ واجب ہے لہٰذا یہ ساقط نہیں ہوگا، یہ حکم جہالت کے ساتھ متعلق ہے ۔

باقی رہی بات سستی کی تو اس سستی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاخیر پر اللہ تعالیٰ سے خوب توبہ کی جائے ، اور میں یتیموں کے سرپرستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس کو واضح وروشن طور پر مقید کریں ، تاکہ وہ کسی تہمت و خیانت کا شکار نہ ہوں یا ان سے کوئی وضاحت طلب نہ کی جائے کہ مال کہاں گیا؟ اور کیسے تم لوگوں نے خرچ کیا؟ لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس کے ذریعہ اپنا ذمہ بری کریں اور اس کے ذریعہ اس مسئلہ سے نکل جائیں


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں