×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / زمینوں میں زکوٰۃ کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1297
- Aa +

سوال

زمینوں میں کب زکوٰۃ واجب ہوگی؟

متى تجب الزكاة في الأراضي؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

ان زمینوں میں اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، البتہ اگر یہ زمینیں تجارت کے لئے خریدے تو پھر اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ، اور اگر زمینیں خرید تو لے لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ وہ ان کا کیا کرے گا، کہ آیا ان میں تعمیرکاری کرے گا ، یا ان کو فروخت کرے گا یا پھر ان کو اپنے پاس رکھے گا ، تو ان تمام صورتوں میں یہ تجارتی سامان نہیں ہے ، اس لئے کہ تجارتی سامان میں واضح طور پر خالص تجارت کی نیت لازمی ہے ، اور اگر اس کی نیت ڈانوڈول ہے اور وہ پس وپیش کا شکار ہے کہ کیا کرے کیا نہ کرے تو اس حال میں اس پر زکوٰۃ نہیں آئے گی اس لئے کہ اصل میں تو زکوٰۃ کے اموال متعین ہیں اور ان کو اللہ کے رسولنے بیان فرما دئیے ہیں ، جبکہ زمینیں اور جائدادیں ان زکوٰۃ کے اموال میں سے نہیں ہیں ، البتہ اگر تجارت کے لئے ہوں تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب ہوگی ۔

اور اگر فروخت کرنے کی نیت سے اس کا مالک بنا تب بھی اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ، اس لئے کہ جمہور علماء کے نزدیک ملکیت کے وقت نیت کا اعتبار ہے ، مثال کے طور پر کوئی یہ کہے کہ میں تجارت کے لئے اس کپ کا مالک بنتاہوں ، تو اس حال میں اس تجارتی کپ ، اس زمین اور عمارت میں زکوٰۃ واجب ہوگی ، لیکن اگر میں وراثت یا خریدنے کے ساتھ ان کا مالک بنتا ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میں ان کا کیا کروں گا، یا پھر میں نے اپنے قرضے کی ادئیگی کے لئے ان کو لیا ہے ، یا پھر کسی سبب سے اختیاری طور پر یا غلبہ کے طور پر میری ملکیت میں داخل ہو جاتی ہیں تو یہاں علمائے کرام یہ فرماتے ہیں : اگر آپ نے اس سے تجارت کی نیت کرلی تو محض آپ کی نیت سے ہی زکوٰۃ شروع ہوجائے گی ، اور یہ جمہورعلماء کے قول کے خلاف ہے ، اس لئے کہ جمہور علماء تجارتی سامان میں تب زکوٰۃ واجب کرتے ہیں جب خود سے ان کا مالک بنا ہو ، یعنی ملکیت شروع ہوتے وقت، وہ تجارت کی نیت مالک ہونے کے وقت سے لگاتے ہیں یہاں تک کہ زکوٰۃ واجب ہوجائے ، یہی جمہورعلماء کا قول ہے اور یہی قول أقرب الی الصواب بھی ہے ۔

یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس کئی زمینیں ہیں اور اسے یہ علم نہیں ہے کہ وہ ان کا کیا کرے گا ، اور اب انہیں فروخت کرنے کی نیت کرتا ہے ، تو اس پر زکوٰۃ نہیں آئے گی اگرچہ وہ انہیں تین چار سال تک رکھے ، اس لئے کہ تجارت کی نیت سے ان کا مالک ہی نہیں بنا


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں