اگرمیت کی طرف سے ورثا ء کو ترکہ ملے لیکن ان کو اس کے بارے میں علم نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
عدم علم الورثة بجزء من تركة مُوَرِّثِهم، وحكم الزكاة فيه؟
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
سوال
اگرمیت کی طرف سے ورثا ء کو ترکہ ملے لیکن ان کو اس کے بارے میں علم نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
عدم علم الورثة بجزء من تركة مُوَرِّثِهم، وحكم الزكاة فيه؟
جواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
ان پر اس مال میں کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس لئے کہ وہ ایک نامعلوم مدت تک اس کے مالک رہے اور اس کے بارے میں ان کو کچھ علم نہیں تھا ، لہٰذا اس مال میں ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت داخل نہیں ہے: ’’آپ ان کے اموال میں سے زکوٰۃ لیں تاکہ یہ زکوٰۃ ان کو پاک وصاف کرے‘‘۔ اور اس صورت میں ان کو اس مال کا کوئی علم نہیں ہے ، لہٰذا یہ مالِ گم گشتہ کے حکم میں ہے اور اس پر اس کی ملکیت ناقص ہے ، لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
لیکن اگر وہ بطورِ قُربِ الٰہی اورشکرانے کے اپنی استطاعت کے مطابق اس کی زکوٰۃ نکالتا ہے تو یہ ایک صدقہ ہے اس لئے وجوبِ زکوٰۃ کے اعتبارسے یہ ایک ایسا مال ہے جس میں عدمِ ملکیت اور عدمِ علم کی وجہ سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی کیونکہ یہ کبھی ان کے حاشیہ ٔخیال میں بھی نہیں گزرا کہ یہ ان کا مال ہے ، سو یہ یا مالِ گمشدہ کی مانند ہے یا اس مال کی مانند جس کی ملکیت ابھی ابھی شروع ہوئی ہے یا یہ ایسا مال ہے جس پراس کو قدرت حاصل نہیں ہے (یعنی:ان تمام انواع کی طرح)۔
اور اسی طرح عدالتوں میں محفوظ کئے ہوئے اموال کی بھی مثال ہے ، اگر ورثاء کا مال عدالت میں محفوظ کیا جائے یہاں تک کہ وہ باہمی صلح صفائی کرلیں یا یہاں تک کہ ترتیب پوری ہوجائے تو اس صورت میں ان کو اس پر ملکیت حاصل نہیں ہے ، اور ان کو خوب علم ہے کہ ان کے پاس مال ہے لیکن ان کو اس پر قدرت حاصل نہیں ہے ، تو اب یہ نہیں جانتے کہ ان کے پاس مال ہے اور بعد میں ان کو علم ہوا ، تو یہ بھی اسی طرح ہے بلکہ اس سے أولیٰ ہے
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
ان پر اس مال میں کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس لئے کہ وہ ایک نامعلوم مدت تک اس کے مالک رہے اور اس کے بارے میں ان کو کچھ علم نہیں تھا ، لہٰذا اس مال میں ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت داخل نہیں ہے: ’’آپ ان کے اموال میں سے زکوٰۃ لیں تاکہ یہ زکوٰۃ ان کو پاک وصاف کرے‘‘۔ اور اس صورت میں ان کو اس مال کا کوئی علم نہیں ہے ، لہٰذا یہ مالِ گم گشتہ کے حکم میں ہے اور اس پر اس کی ملکیت ناقص ہے ، لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔
لیکن اگر وہ بطورِ قُربِ الٰہی اورشکرانے کے اپنی استطاعت کے مطابق اس کی زکوٰۃ نکالتا ہے تو یہ ایک صدقہ ہے اس لئے وجوبِ زکوٰۃ کے اعتبارسے یہ ایک ایسا مال ہے جس میں عدمِ ملکیت اور عدمِ علم کی وجہ سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی کیونکہ یہ کبھی ان کے حاشیہ ٔخیال میں بھی نہیں گزرا کہ یہ ان کا مال ہے ، سو یہ یا مالِ گمشدہ کی مانند ہے یا اس مال کی مانند جس کی ملکیت ابھی ابھی شروع ہوئی ہے یا یہ ایسا مال ہے جس پراس کو قدرت حاصل نہیں ہے (یعنی:ان تمام انواع کی طرح)۔
اور اسی طرح عدالتوں میں محفوظ کئے ہوئے اموال کی بھی مثال ہے ، اگر ورثاء کا مال عدالت میں محفوظ کیا جائے یہاں تک کہ وہ باہمی صلح صفائی کرلیں یا یہاں تک کہ ترتیب پوری ہوجائے تو اس صورت میں ان کو اس پر ملکیت حاصل نہیں ہے ، اور ان کو خوب علم ہے کہ ان کے پاس مال ہے لیکن ان کو اس پر قدرت حاصل نہیں ہے ، تو اب یہ نہیں جانتے کہ ان کے پاس مال ہے اور بعد میں ان کو علم ہوا ، تو یہ بھی اسی طرح ہے بلکہ اس سے أولیٰ ہے