×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1679
- Aa +

سوال

کیا رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے؟

هل يجوز دفع الزكاة للأقارب؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مستحقینِ زکوٰۃ کو بڑی صراحت وضاحت کے ساتھ بیا ن فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ﴿بے شک زکوٰۃ فقراء ، مساکین ، زکوٰۃ پر کام کرنے والے ، نئے اسلام لانے والوں کی دلجوئی ، غلاموں ، قرضداروں ، اللہ کے راستے میں چلنے والے مجاہدینِ اسلام اور راہگیر مسافروں کے لئے ہے﴾ {التوبۃ:۱۶۰} اس کے بعد ارشاد فرمایا: ﴿یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بہت علم والا بہت حکمت والا ہے ﴾ لہٰذ ااس آیت میں مستحقینِ زکوٰہ کو بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کون اس کا حقدا ر ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ایک ایمان والے کو چاہئے کہ وہ ان آٹھ مصارف سے تجاوز نہ کرے اس لئے کہ اگر اس نے ان آٹھ مصارف سے تجاوز کیا تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں جو آٹھ اقسام ذکر کی ہیں تو ان اقسام میں اپنے اور پرائے کی کوئی قید نہیں ہے ۔

لہٰذا جو بھی فقیر و تنگدست ہو گا وہ زکوٰۃ کا حقدار ٹھہرے گا، لیکن جہاں تک رشتہ داروں کی بات ہے تو ان کے متعلق ایک تنبیہ یہاں ضروری ہے وہ یہ کہ اگر یہ رشتہ دار ان لوگوں میں سے ہوں جن کا نان نفقہ واجب ہے تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ ان کو واجب نفقہ دیا جاتا ہے ، اس لئے کہ اس حالت میں وہ ایک واجب کو دوسرے واجب سے ساقط کرے گا، جبکہ یہ سراسر غلط ہے ، اس لئے کہ ان کو تب زکوٰ ۃ دینا جائز ہے جب ان پر نفقہ خرچ نہ کیا جاتا ہو، یا ان کے پاس موجودہ نفقہ ان کی ضروریات کے لئے کافی نہ ہوتا ہو، مثلا اگر کسی کو ان پر خرچ کرنے کی قدرت تو ہو لیکن ان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے جس نفقہ کی ضرورت ہو اس پر قدرت نہیں ہے تو اس حالت میں اس کو چاہئے کہ اس کی ضعف و لاچاری اور عدمِ قدرت کی وجہ سے اس کی ضروریات کے لئے اس کو زکوٰۃ دے دے ۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ آپ کا ایک بھائی ہے جس کا کوئی ایسا وارث ہے جو آپ کا وارث نہیں ہے تو یہاں اس کا نفقہ آپ پر واجب نہیں ہے، لہٰذا آپ کا اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔ اور اگر وہ آدمی آپ کا والد ہے اور وہ تنگدست بھی ہے تو وہ آپ کا اور آپ اس کے وارث بن سکتے ہیں لہٰذا آپ کا اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے، اور اگر آپ اس کو نفقہ دینے پر قادر ہیں تو اس کو نفقہ دیں اس لئے کہ یہ آپ پر واجب ہے کہ معاشی کمزوری کے وقت آپ اس پرخرچ کریں ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت داخل ہے: ﴿اور وارث پر بھی اسی طرح ہے﴾ {البقرۃ: ۲۳۳

لیکن اگر آپ اسے نفقہ نہیں دے سکتے مثال کے طور پر اگر آپ کی آمدنی محدود ہے اور آپ کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ اس کی ضروریات پوری کریں اور آپ کے پاس مال ہے جس کی آپ زکوٰۃ نکالنا چاہتے ہیں تو علماء کے صحیح قول کے مطابق آپ کے لئے اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اس لئے کہ اس وقت وہ فقراء میں سے ہیں نہ کہ رشتہ داروں میں سے ، اس لئے کہ رشتہ داری زکوٰۃ دینے کے اسباب میں سے نہیں ہے ، کیونکہ اسباب تو وہ ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کو واجب قرار دیتے ہیں اور یہ اسباب وہ آٹھ اقسام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آیتِ کریمہ میں ذکر کردئیے ہیں۔

بہرکیف !  تما م باتوں کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہے کہ مستحقینِ زکوٰۃ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں ذکر کیا ہے ، اور اس آیت میں اپنے اور پرائے سب برابر ہیں ، لیکن اپنوں میں یہ بات ہے کہ اگر وہ اس طبقہ میں سے ہوں جن کا نان نفقہ واجب ہے تو پھر ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے ، اس لئے آپ ان پرصرف نفقہ خرچ کریں ، البتہ اگر آپ ان کو نان نفقہ دینے سے عاجز ہیں اور آپ کے پاس زکوٰۃ کا مال ہے تو پھر ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ، اس لئے کہ اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت داخل ہیں: ﴿بے شک زکوٰۃ فقراء و مساکین اور زکوٰۃ پر کام کرنے والوں کے لئے ہے ……الخ﴾


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں