×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / لباس اور زینت / کالے خضاب کے ساتھ بال کلر کرنے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2334
- Aa +

سوال

جناب مآب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں ایک ۲۳ سالہ نوجوان ہوں کیا میرے لئے اپنے بالوں کو کالے خضاب سے رنگنا جائز ہے ؟

صبغ الشعر بالسواد

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کالے خضاب سے بال رنگنے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے جن میں سعد بن ابی وقاص ، عقبہ بن عامر اور حسن و حسین سرفہرست ہیں ، یہی زہری ، حسن بصری اور ابن سیرین کا بھی مذہب ہے، اور اس میں اسحاق بن راہویہ نے ایک عورت کو اپنے خاوند کے لئے سجنے میں اجازت دی ہے اور یہی قاضی ابویوسف کا بھی مذہب ہے ۔

اور تابعین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک کالے خضاب سے بال رنگنا مکروہ ہے: ان میں عطاء ، مجاہد ، مکحول ، شعبی اور سعیدبن جبیر سرفہرست ہیں ، اور یہی جمہور فقہائے کرام میں سے احناف ، مالکیہ ، شوافع اور حنابلہ کا مذہب ہے، ان حضرا ت کا استدلال امام مسلم [۲۱۰۲] کی روایت کردہ حدیث سے ہے جو ابو زبیر کے طریق سے حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ آپکے پاس فتح مکہ کے دن ابو قحافہ کو لایا گیا اور ان کے سر اور داڑھی کے بال شتر مرغ کی طرح سفید تھے ، آپ نے ا ن کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: "اس کو کسی چیز سے تبدیل کرو لیکن مکمل کالے رنگ کے خضاب سے بچو"۔

اوراہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک کالے رنگ کا خضاب حرام ہے، اس لئے کہ آپکے فرمان میں امر وجوب کا تقاضا کرتا ہے، اور بعض حضرات کا استدلال امام احمد [۲۴۶۶] و ابوداؤد [۴۲۱۲] اور نسائی [۵۰۷۵] کی روایت کردہ حدیث سے ہے جو عبدالکریم اورسعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: "قرب قیامت میں ایک قوم اپنے بالوں کو کبوتروں کے پوٹوں کی طرح خضاب سے رنگیں گے یہ لوگ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھیں گے"۔

اب محدثین کا عبدالکریم کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ کون ہے؟ ایک قول ہے کہ یہ جزری تھا جیسا کہ بعض سنن کے نسخوں میں ہے ، ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ یہ ابو المخارق کا بیٹا تھا ، اور وہ ایک ضعیف راوی ہے جس کی حدیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا ، اور حافظ بن حجر نے فتح الباری [۶/۴۹۹] میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند قوی ہے الا یہ کہ اس کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے، لہٰذا موقوف ہونے کے اعتبار سے اس کی رائے نہیں لی جائے گی پس اس کا حکم مرفوع کا ہوگا۔

لیکن مجھے جمہور کا قول زیادہ راجح لگ رہا ہے جو کہ کراہت کا ہے ، اور وہ اس لئے کہ اما م مسلم نے آپکی حدیث نقل کی ہے جس میں آپنے ارشاد فرمایا: ’’کالے خضاب سے بچو‘‘۔

لیکن اہل علم کہتے ہیں کہ (واجتنبو السواد) یہ آپکے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ راویٔ حدیث کی طرف سے اپنی زیادتی ہے، اس لئے کہ ابوخیثمہ نے ابوزبیر سے پوچھا جیسا کہ مسند احمد [۱۴۲۳] میں ہے کہ کیا جابر نے یہ کہا ہے (جنّبوہ السواد)؟ فرمایا: نہیں۔

بہرکیف ! اس زیادتی کی وجہ سے حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ کراہت ثابت ہوتی ہے ، اور اگر یہ امر آداب میں ہو تو پھر یہ استحباب پر محمول ہے ، اسی لئے جمہور کا مذہب کراہت کا ہے نہ کہ حرمت کا ۔

باقی رہی ابن عباسؓ کی حدیث کی بات تو اس کے بارے میں پیچھے گزر چکا ہے کہ اس کی سند میں محدثین نے کلام کیا ہے، اور اگر معنی کے اعتبار سے یہ ثابت بھی ہو جائے تو اس کے بارے میں کتاب الخضاب کے مصنف ابن ابی عاصم فرماتے ہیں: اس حدیث میں کالے خضاب سے بال رنگنے کی کراہت کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس میں ایک قوم کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے کہ یہ ان کی صفت ہوگی اور اس وصف کی کوئی مذمت نہیں ہے ۔ واللہ أعلم

آپ کا بھائی/

أ.د/ خالد المصلح

25 /7/ 1427هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں