×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / سیرت اور تاریخ / کیا ہم حضرت علی بن ابی طالب کو رضی اللہ عنہ کہیں یا کرّم اللہ وجہہ؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1984
- Aa +

سوال

حضرت علی بن ابی طالب کا نام لیتے وقت کیا کہنا صحیح ہے رضی اللہ عنہ کہنا یا کرّم اللہ وجہہ کہنا؟ اور کرّم اللہ وجہہ کی اصل کیا ہے؟

هل نقول رضي الله عنه أم كرم الله وجهه؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

سلف کے نزدیک اصل تو یہی ہے کہ تمام صحابۂ رسول کے لئے رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کئے جائیں ، اس لئے کہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ صرف انہی کا شعار بن گیا ہے کہ جب کسی صحابی کو یاد کیا جائے تو ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہا جائے ، اور حضرت علی بن ابی طالبؓ تو باقی تمام صحابہ میں بہترین صحابیٔ رسول ہیں بلکہ حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے بعد اس امت میں سب سے افضل انسان ہیں ۔

باقی حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے اسم گرامی کے ساتھ ’’کرّم اللہ وجہہ‘‘ کہنا صرف انہی کی خصوصیت ہے ، ابن کثیر ؒ نے تو سورۂ احزاب میں ﴿یا أیھا الذین آمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیما﴾ کی تفسیر میں یہاں تک لکھا ہے کہ کتاب اللہ کی بہت ساری منسوخ شدہ آیات میں یہ بات غالب ہے کہ صرف علی بن ابی طالب ؓ کے لئے ’’علیہ السلام یا کرّم اللہ وجہہ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے جائیں ، لیکن اس کا معنی اگرچہ صحیح بھی ہو تب بھی تمام صحابہ کے درمیان برابری ہونی چاہئے ، اور اگر یہ تعظیم وتکریم کے باب میں سے ہے تو پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے اس بات کے زیادہ مستحق ہیں ، علامہ سفّارینی نے غذاء الالباب (ا/۳۳) میں ابن کثیرؒ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:ـ ’’یہ مکمل طور پر پھیل گیا ہے اور اس نے کانوں اور کتابوں کو بھر دیا ہے‘‘۔ شیوخ فرماتے ہیں کہ علی بن ابی طالبؓ کو ’’کرم اللہ وجہہ‘‘ کے ساتھ اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی پتھر کی مورتی کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ، اور اس میں انشاء اللہ کوئی حرج نہیں، اللہ توفیق دے ۔

باقی حضرت علی بن ابی طالبؓ کے بارے میں یہ جو وارد ہوا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ نہیں کیا تو یہ بات صرف انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ اور صحابہ کے ساتھ بھی خاص ہے ، لہٰذا أولیٰ یہی ہے کہ علی بن ابی طالبؓ کو اس کے ساتھ خاص نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ میں نے بعض کتابوں میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے نام کے ساتھ بھی ’’کرم اللہ وجہہ‘‘ کے الفاظ پڑھے ہیں جیسا کہ طبری کی کتاب ’’کتاب الآثار‘‘ (۳۷۲/۱) مدنی طبعہ میں ایسا لکھا گیا ہے اسی طرح کتاب کی کئی جگہوں میں ایسا لکھا ہے ۔ واللہ أعلم


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں