×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / بانڈز کو بازار میں فروخت کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1701
- Aa +

سوال

محترم جناب حضرت السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، بانڈز کا بازار میں فروخت کرنے میں اپ کیا فرماتے ہیں؟

التورُّق في الأسهم

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

 اس مسئلہ کے بارے میں بہت زیادہ پوچھا جاتا ہے ، کہ ادمی بنک جاتا ہے اور بنک سے بازار میں فروخت کرنے کے لیے کچھ بانڈز خریدتا ہے، اور پھر اس کو فروخت کرنے س  جو مال اسے ملتا ہے یہ اس سے منتفع ہوتا ہے ۔ اور یہ تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے:

۱۔  کہ بنک بذات خود ان بانڈز کا مالک ہو ، پس اگر بوقت معاملہ بنک بانڈز کا مالک نہ ہو تو بنک غیر مملوکہ چیز کو فروخت کرنے والا ہوگا ، اور یہ جائز نہیں ہے ۔

۲۔  یہ بانڈز بھی جائز بانڈز ہو، جیسے کے سروسز والی کمپنیاں ہوتی ہے یا اسکے علاوہ اور کوئی ۔

۳۔  کہ خریدار اسے بنک کی جانب سے فروخت نہ کرے ، کیونکہ یہ عینہ ہے ۔ اور بنک کو اسے فروخت  کرنے  کے لیے وکیل بھی نہ بنائے۔ کیونکہ اگر بنک کو فروخت کرنے کے لیے وکیل بنائے گا تو یے ربا کا ایک حیلہ ہوجائے گا۔

پس اگر بانڈز فروخت کرتے وقت یہ تینوں شروط موجود ہو تو پھر یہ معاملہ جائز ہے ۔ واللہ اعلم۔

آپ کا بھائی/

أ.د.خالد المصلح

5 / 3 / 1430هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں