محترم جناب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، کیا سود بھی باقی محرمات کے مانند ہے جو ضرورت کے وقت جائز ہوجاتی ہیں ؟
الربا عند الضرورة
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
سوال
محترم جناب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، کیا سود بھی باقی محرمات کے مانند ہے جو ضرورت کے وقت جائز ہوجاتی ہیں ؟
الربا عند الضرورة
جواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
سود کی ساری قسمیں (ربا البیوع، ربا القروض)عظیم ترین کبیرہ گناہوں میں سے ہیں، اور اسکی حرمت پر قرآن و حدیث میں بہت سارے دلائل وارد ہوے ہیں ، لہذا اہل اسلام پر ان سب سے بچنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ آل عمران: ۱۳۰) ۔ اور اسکے علاوہ بہت سے دلائل وارد ہوئی ہے۔ اور ظاہر تو یہی ہے کہ ربا بھی باقی محرمات کے مانند ہے ۔ اور علماء مالکیہ،شافعیہ اور اور حنابلہ کی ایک جماعت نے صراحۃ کچھ مسائل ذکر کئے ہے جن میں ضمناََ یہ بات موجود ہے کہ ربا (سود) بھی ضرورت کے وقت جائز ہوجاتا ہے ۔ یا پھر مجبوری کی حالت میں مباح ہوجاتا ہے ۔
لیکن یہ بات ضروری ہے کہ اس بارے میں غور کیا جائے کہ سود کا مباح ہونے کے لیے صفت ضرورت اپنی حقیقی معنوں میں پائی جاتی ہو، اور ضرورت وہ کام ہے جس کے بغیر انسان کا کوئی چارہ کار نہ ہو۔
اور ضرورت حرام کام کو صرف دو شرطوں کے ساتھ جائز کرتی ہے:
۱۔ یہ بات طے پائے کہ ضرر کو دور کرنے کے لیے حرام کام کا ارتکاب کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
۲۔ یہ بات طے پائے کہ اس حرام کام کے کرنے سے یہ ضرر دور ہوجائے گا۔
اور جہاں کوئی شک شبہ واقع ہوجائے کہ کسی مسئلہ میں یہ شروط اور تفصیل پوری طرح موجود ہے کہ نہیں تو اصل تو یہی ہے کہ ہر مسئلہ کو اپنے حال پر ہی چھوڑدیا جائے، اور وہ سود کا ناجائز ہونا ہے۔اے اللہ ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ہمارے شر سے بچا۔
آپ کا بھائی/
أ.د.خالد المصلح
6 /10 /1426هـ
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
سود کی ساری قسمیں (ربا البیوع، ربا القروض)عظیم ترین کبیرہ گناہوں میں سے ہیں، اور اسکی حرمت پر قرآن و حدیث میں بہت سارے دلائل وارد ہوے ہیں ، لہذا اہل اسلام پر ان سب سے بچنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ آل عمران: ۱۳۰) ۔ اور اسکے علاوہ بہت سے دلائل وارد ہوئی ہے۔ اور ظاہر تو یہی ہے کہ ربا بھی باقی محرمات کے مانند ہے ۔ اور علماء مالکیہ،شافعیہ اور اور حنابلہ کی ایک جماعت نے صراحۃ کچھ مسائل ذکر کئے ہے جن میں ضمناََ یہ بات موجود ہے کہ ربا (سود) بھی ضرورت کے وقت جائز ہوجاتا ہے ۔ یا پھر مجبوری کی حالت میں مباح ہوجاتا ہے ۔
لیکن یہ بات ضروری ہے کہ اس بارے میں غور کیا جائے کہ سود کا مباح ہونے کے لیے صفت ضرورت اپنی حقیقی معنوں میں پائی جاتی ہو، اور ضرورت وہ کام ہے جس کے بغیر انسان کا کوئی چارہ کار نہ ہو۔
اور ضرورت حرام کام کو صرف دو شرطوں کے ساتھ جائز کرتی ہے:
۱۔ یہ بات طے پائے کہ ضرر کو دور کرنے کے لیے حرام کام کا ارتکاب کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
۲۔ یہ بات طے پائے کہ اس حرام کام کے کرنے سے یہ ضرر دور ہوجائے گا۔
اور جہاں کوئی شک شبہ واقع ہوجائے کہ کسی مسئلہ میں یہ شروط اور تفصیل پوری طرح موجود ہے کہ نہیں تو اصل تو یہی ہے کہ ہر مسئلہ کو اپنے حال پر ہی چھوڑدیا جائے، اور وہ سود کا ناجائز ہونا ہے۔اے اللہ ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ہمارے شر سے بچا۔
آپ کا بھائی/
أ.د.خالد المصلح
6 /10 /1426هـ