×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / معاملہ طئے نہ ہونے کہ باوجود بیانہ {ایڈوانس} پر قبضہ کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1450
- Aa +

سوال

اگر میرے اور مالک مکان کے درمیان سودا طے ہوا اور میں نے کوئی چیز خریدنے کے لیے بیانہ بھی حوالے کردیا ، اور پھر وہ چیز میں نے نہیں خریدی، تو کیا میں وہ بیانہ واپس لے سکتا ہوں ؟ اور اگر میں بیانہ نہ لوں اور دکاندار مجھے کہے کہ آجاؤ اپنا بیانہ لو ، تو میں لوں کہ نہ لوں؟

حكم أَخْذ العربون إذا لم تتم الصفقة؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

 اس بیانہ کے کئی نام ہے ان میں سے ایک یہ نام ہے (عربون) اور یہ اسکا مشہور نام ہے ۔ اور اسے اربون بھی کہتے ہیں الف کے ساتھ، اور یہ وہ مال ہے جو انسان کوئی چیز خریدتے ہوئے اسکی قیمت میں سے کچھ حصہ دیتا ہے۔  جیسے کہ اگر میں ایک پانچ ریال کا ایک قلم خریدنے جاؤ تو میں فروخت کرنے والے کو ایک ریال دوں اور (میں اسے کہوں کہ) باقی میں لے کے آتا ہوں ۔ تو اس ایک ریال کو بیانہ کہتے ہیں ۔ اب اگر مشتری قلم لیتا ہے اور اس کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور بائع اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ یہ قیمت اس کو قسطوں میں دی جائے گی تو بات ختم کیونکہ یہ ثمن ہی کا جز ہے۔

لیکن اگر اس بیانہ میں جب معاملہ فسخ (نہ پورا ہو) ہو جائے ۔ مطلب یہ کہ اگر میں نے یہ کہا کہ اگر میں بقایا رقم آپکے پاس نہ لایا تو ہمارا آپس کا معاملہ منسوخ ہو جائے گا، اور یہ اتفاق چاہے قولی ہو یا عرف میں ہو تو اس حالت میں اگر کسی بھی سبب کی وجہ سے یہ معاملہ فسخ ہوتا ہے تو یہ ایک ریال جو قلم کے عوض لیا تھا یہ مشتری واپس لے گا یا بائع کے پاس باقی رہے گا ؟ اس مسئلے میں علماء کے دو اقوال ہے:

اہلِ علم میں سے جمہور کا قول یہ ہے: کہ یہ بیانہ مشتری کا حق ہے، یعنی اس نے ایڈوانس میں جو ایک درہم لیا تھا تو بیع کی فسخ کی صورت میں مشتری کو وہ جز واپس کی جائے گا، اور اس کی دلیل وہ مسند وغیرہ میں عمرو بن شعیب کی روایت ہے کہ نبینے بیانہ والے بیع سے منع فرمایا ہے۔ اور یہ یہی صورت ہے کیونکہ اس میں بغیر حق کے مال کھایا جاتا ہے، کیونکہ وہ یہ ایک ریال بغیر کسی عوض کے لے رہا ہے۔

دوسرا قول: جو اہلِ علم میں سے بعض کا ہے جن میں سے حنابلہ بھی ہے، ان کا یہ مذہب ہے کہ بیانہ کا مال لینا جائز ہے جب آپس میں معاملہ طے ہو جائے، تو بائع کے لئے جائز ہے کہ وہ بیانہ کا مال لے اور مشتری کو واپس نہ کرے کیونکہ یہ شرط میں سے ہے۔ اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "اے ایمان والوں معاہدوں کو پورا کرو" [المائدۃ: ۱]۔ کیونکہ بائع جب مشتری کے لئے اس چیز کو روکتا ہے تو اس میں اس کا نقصان ہے، تو یہ بیانہ لینا اس کا حق ہے کیونکہ اس نے اس مبیع کو روکے رکھا تھا۔

اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ: یہ ضعیف ہے، اور اگر فرض کرے یہ حدیث ثابت بھی ہو تو یہ ندب پر محمول کیا جائے گا۔ اور یہ مکارمِ اخلاق میں سے ہے کہ بائع یہ ثمن اپنے پاس رکھے اس لئے کہ مشتری نے اس عقد کو پورا نہیں کیا اور نہ وہ چیز لی، تو یہ بیانہ کے ضمن میں آجائے گا۔

لہذا اقرب الی الصواب یہ ہے کہ بائع اس ثمن کو اپنے پاس رکھے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے اور اس آیت کے تحت جس میں عقد پورا کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ایک اور حدیث بھی ہے: "مسلمانوں (کے معاملات) ان کے شروط پر ہیں الا وہ شرط جو کسی حرام کو حلال کرے یا حلال کو حرام کردے" {سنن ابی داود: 3596 صححہ البانی}۔ اور یہ شرط (بیانہ) نہ حرام کو حلال کر رہی ہے اور نہ حلال کو حرام۔ اور معاملات میں اصل حلَت ہے۔

یہ تمام دلائل بیانہ کے صحت پر دال ہے، لیکن مکارمِ اخلاق اور حدیث میں اشکال کو دیکھتے ہوئے بائع کو چاہئے کہ مشتری کو ثمن دے دیں اگر عقد ابھی تام نہیں ہوا۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں