بنک البلاد کے شیرز کا کیا حکم ہے ؟
ما حكم الأسهم في بنك البلاد؟
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
سوال
بنک البلاد کے شیرز کا کیا حکم ہے ؟
ما حكم الأسهم في بنك البلاد؟
جواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
یہ سوال مکرر ہے ۔ بینک البلاد ان جدید بینکوں میں سے ہے جن میں یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ یہ بینک اپنے معاملات میں اور لوگوں کے اموال کی سرمایہ کاری میں شریعت کے احکامات کی پابندی کرتا ہے ۔ اور بڑی تحقیق و تفتیش کے بعد مجھےعلم ہوا کہ یہ بینک اکاونٹیبلیٹی سے پاک ہے اور اس بینک میں شیرز کا کاروبار بھی جائز ہے ، بلکہ ہم اپنے عزیزوں کو اس بینک کے شیرز لینے کی ترغیب بھی دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک قسم کی معاونت ہے اسلامی معیشت کے ساتھ ۔ درحقیقت یہ بینک اپنے معاملات میں شریعت کے طریقہ کی پابندی کرتا ہے ، اور مشتبہات سے دور رہنے کی پوری کوشش کرتا ہے ، اور اسکے ذمہ دار حضرات سے میں بذات خود واقف ہوں، اور اسکے شریعہ بورڈ کو بھی جانتا ہوں، اور یہ بات بھی پکی ہے اسکا عملہ ہر شک وشبہ سے پوری طرح دور ہونے کی کوشش کرتا ہے ، اور ہر اس معاملہ سے دور رہتا ہے جس میں مواخذہ ہو۔
لیکن بعض معزز ساتھیوں نے کچھ مخصوص کمپنیوں کے شیرز خریدے ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر ایک ایک لاکھ کے خریدے اور اب اسکے اکاونٹ میں کوئی پچاس لاکھ کے قریب پیسے ہیں ، اور اسے اب پتہ چلا کے یہ کمپنی ناجائز ہے ، یا تو پچاس فیصد سودی قرضوں کی وجہ سے اور یا پھر بانڈز کی وجہ سے ۔ اب اس مسئلہ کا کیا کرے ؟ کیا سارے فروخت کر ڈالے کیونکہ اسکو اس بنک کی حرمت کا علم ہوا ؟ یا پھر پھر ان پیسوں میں سے کچھ خارج کرے ؟
تو میں اس شخص کو کہتا ہوں کہ: در اصل یہ مسئلہ مشتبہ فیہا ہے ، اور شیرز کے خرید و فروخت کے معاملہ کو اس وجہ سے حرام کہنا کہ اس میں کچھ معاملات ناجائز ہے اس بات میں دقت نہیں (اور ذرا اندازے اور اٹکل سے کام لیا ہے) کیونکہ شیرز کو بذات خود حرام نہیں کہا جاسکتا سوائے یہ کہ جو اصل تجارتی سرگرمی جس پر سارے کام کا دار ومدار ہے اور شیرز کے خرید و فروخت کا معاملہ بھی اس پر قائم ہے وہ حرام ہو۔
لیکن اگر اصل تجارتی سرگرمی ہی مباح اعمال میں سے ہو جیسے کے سروسز، بجلی ، ٹیلیفون ، سب قسم کے معاملات ، سروسز ، ممبرشپ ، اور موجودہ شیرز چاہے سروسز کے ہو یا سیلز کے یا جائدادی سرمایہ کاری ہو، اور اسی طرح کے اور مباح اعمال میں سے کوئی بھی ہو ۔ تو اس مسئلہ یہ ہے کہ اگر اصل تجارتی سرگرمی مباح ہو تو سرگرمی کو بھی مباح کہا جائے گا ۔ اور کبھی کبھار اس تجارتی سرگرمی کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی ملائی جاتی ہے جو میں نے پھلے ذکر کی جیسے کہ سودی قرضے او بانڈز ، تو اگر ان اضافی چیزوں کی نسبت اصل تجارتی سرگرمی میں زیادہ ہو تو یہ چیزیں اصل تجارتی سرگرمی کو خراب کر دیتی ہے ، اور اگر ان اضافی چیزوں کی نسبت اصل تجارتی سرگرمی میں تھوڑا ہو تو میں سب کو دعوت دیتا ہو کہ اپنے معاملات شبہات سے پاک کریں ۔ خاص طور پر جب انسان لوگوں کے پیسوں سے شیرز کے خرید و فروخت کے معاملات کرتا ہو ، جبکہ انہوں نے اسکو پیسے بطور امانت دیئے ہوتے ہے ۔ پس ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے اور لوگوں کے اموال کو شک و شبہ سے پاک کرنے کی کوشش کرے ۔
لیکن اگر اس طرح کا معاملہ واقع ہوجائے اور اور اس میں شبہ بھی ہو تو اس شخص کو چاہیے کے شبہ کے بقدر اپنے مال کو پاک کرے ۔
اور ہاں جس شخص نے شیرز کے خرید و فروخت کا معاملہ کیا اس ذہن کے ساتھ کہ یہ پاک صاف معاملہ ہے ، اور بعد میں اسکو پتہ چلا کہ اس میں حرام شامل ہے ، یا یہ معاملہ حرام ہے ، تو اگر اسکو حرمت کا علم بعد میں ہوا ہو اور ابتداء میں اسکو حرمت کا علم نہیں تھا تو پھر تو جتنے منافع اسکو حاصل ہوئے ہیں وہ اسکے ہیں ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کوئی معاملہ کرے اور اسکا گمان ہو کہ یہ معاملہ ٹھیک ہے اور اسکو اس معاملہ میں حرمت یا خرابی کا علم نہ ہو تو اسکے لیے اس معاملہ سے سارے حاصل کیے ہوئے منافع جائز ہونگے۔ اور اس بات کی دلیل اللہ تعالی کا آیتِ ربا میں یہ فرمان ہے کہ: (اللہ نے گزشتہ کو معاف کر دیا) {المائدۃ: ۹۵}۔ پس اللہ تعالی نے سود کے معاملہ میں گزشتہ پر مواخذہ نہیں کیا ، اور معاف کردیا ، لیکن جب علم حاصل ہوا تو پھر محرمات سے رکنا واجب ہو گیا ، اور ان محرمات میں وہ بھی شامل ہے جن چیزوں کی حرمت واضح ہوگئی۔
اور اگر یہ بات واضح ہوئی کہ اس معاملہ میں شبہہ ہے تو پھر میری رائے ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ شبہات سے بچے تو وہ دور ہو جائے۔ شعبی ؒ کی حدیث کی وجہ سے جو انہوں نے نعمان بن بشیر ؓ سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا: (حلال سارا کا سارا بلکل واضح ہے اور حرام بھی سارا کا سارا بلکل واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں ، پس جو شخص ان مشتبہات سے بچ گیا تو وہ بری ہوگیا اپنے دین کے لیے) یعنی کہ اپنے رب کے معاملہ میں۔ اور (اپنے عزت کے لیے) ، یعنی کہ لوگوں کے معاملہ میں ۔ پس اگر وہ چاہتا ہے کہ اسے فروخت یا خیرات کرکے یا کسی اور طریقہ سے اپنی جان اس سے چھڑائے تو یہ کرسکتا ہے ۔ اور اگر وہ چاہتا ہے کہ اسی طرح چلتا رہے ، تو میں قطعی طور پر منع نہیں کرتا بلکہ میں حرام بھی نہیں کہتا لکن اگر شبہہ کی نسبت تھوڑی ہو تو اسکے بقدر اپنے مال کو پاک کرلے ۔
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
یہ سوال مکرر ہے ۔ بینک البلاد ان جدید بینکوں میں سے ہے جن میں یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ یہ بینک اپنے معاملات میں اور لوگوں کے اموال کی سرمایہ کاری میں شریعت کے احکامات کی پابندی کرتا ہے ۔ اور بڑی تحقیق و تفتیش کے بعد مجھےعلم ہوا کہ یہ بینک اکاونٹیبلیٹی سے پاک ہے اور اس بینک میں شیرز کا کاروبار بھی جائز ہے ، بلکہ ہم اپنے عزیزوں کو اس بینک کے شیرز لینے کی ترغیب بھی دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک قسم کی معاونت ہے اسلامی معیشت کے ساتھ ۔ درحقیقت یہ بینک اپنے معاملات میں شریعت کے طریقہ کی پابندی کرتا ہے ، اور مشتبہات سے دور رہنے کی پوری کوشش کرتا ہے ، اور اسکے ذمہ دار حضرات سے میں بذات خود واقف ہوں، اور اسکے شریعہ بورڈ کو بھی جانتا ہوں، اور یہ بات بھی پکی ہے اسکا عملہ ہر شک وشبہ سے پوری طرح دور ہونے کی کوشش کرتا ہے ، اور ہر اس معاملہ سے دور رہتا ہے جس میں مواخذہ ہو۔
لیکن بعض معزز ساتھیوں نے کچھ مخصوص کمپنیوں کے شیرز خریدے ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر ایک ایک لاکھ کے خریدے اور اب اسکے اکاونٹ میں کوئی پچاس لاکھ کے قریب پیسے ہیں ، اور اسے اب پتہ چلا کے یہ کمپنی ناجائز ہے ، یا تو پچاس فیصد سودی قرضوں کی وجہ سے اور یا پھر بانڈز کی وجہ سے ۔ اب اس مسئلہ کا کیا کرے ؟ کیا سارے فروخت کر ڈالے کیونکہ اسکو اس بنک کی حرمت کا علم ہوا ؟ یا پھر پھر ان پیسوں میں سے کچھ خارج کرے ؟
تو میں اس شخص کو کہتا ہوں کہ: در اصل یہ مسئلہ مشتبہ فیہا ہے ، اور شیرز کے خرید و فروخت کے معاملہ کو اس وجہ سے حرام کہنا کہ اس میں کچھ معاملات ناجائز ہے اس بات میں دقت نہیں (اور ذرا اندازے اور اٹکل سے کام لیا ہے) کیونکہ شیرز کو بذات خود حرام نہیں کہا جاسکتا سوائے یہ کہ جو اصل تجارتی سرگرمی جس پر سارے کام کا دار ومدار ہے اور شیرز کے خرید و فروخت کا معاملہ بھی اس پر قائم ہے وہ حرام ہو۔
لیکن اگر اصل تجارتی سرگرمی ہی مباح اعمال میں سے ہو جیسے کے سروسز، بجلی ، ٹیلیفون ، سب قسم کے معاملات ، سروسز ، ممبرشپ ، اور موجودہ شیرز چاہے سروسز کے ہو یا سیلز کے یا جائدادی سرمایہ کاری ہو، اور اسی طرح کے اور مباح اعمال میں سے کوئی بھی ہو ۔ تو اس مسئلہ یہ ہے کہ اگر اصل تجارتی سرگرمی مباح ہو تو سرگرمی کو بھی مباح کہا جائے گا ۔ اور کبھی کبھار اس تجارتی سرگرمی کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی ملائی جاتی ہے جو میں نے پھلے ذکر کی جیسے کہ سودی قرضے او بانڈز ، تو اگر ان اضافی چیزوں کی نسبت اصل تجارتی سرگرمی میں زیادہ ہو تو یہ چیزیں اصل تجارتی سرگرمی کو خراب کر دیتی ہے ، اور اگر ان اضافی چیزوں کی نسبت اصل تجارتی سرگرمی میں تھوڑا ہو تو میں سب کو دعوت دیتا ہو کہ اپنے معاملات شبہات سے پاک کریں ۔ خاص طور پر جب انسان لوگوں کے پیسوں سے شیرز کے خرید و فروخت کے معاملات کرتا ہو ، جبکہ انہوں نے اسکو پیسے بطور امانت دیئے ہوتے ہے ۔ پس ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے اور لوگوں کے اموال کو شک و شبہ سے پاک کرنے کی کوشش کرے ۔
لیکن اگر اس طرح کا معاملہ واقع ہوجائے اور اور اس میں شبہ بھی ہو تو اس شخص کو چاہیے کے شبہ کے بقدر اپنے مال کو پاک کرے ۔
اور ہاں جس شخص نے شیرز کے خرید و فروخت کا معاملہ کیا اس ذہن کے ساتھ کہ یہ پاک صاف معاملہ ہے ، اور بعد میں اسکو پتہ چلا کہ اس میں حرام شامل ہے ، یا یہ معاملہ حرام ہے ، تو اگر اسکو حرمت کا علم بعد میں ہوا ہو اور ابتداء میں اسکو حرمت کا علم نہیں تھا تو پھر تو جتنے منافع اسکو حاصل ہوئے ہیں وہ اسکے ہیں ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کوئی معاملہ کرے اور اسکا گمان ہو کہ یہ معاملہ ٹھیک ہے اور اسکو اس معاملہ میں حرمت یا خرابی کا علم نہ ہو تو اسکے لیے اس معاملہ سے سارے حاصل کیے ہوئے منافع جائز ہونگے۔ اور اس بات کی دلیل اللہ تعالی کا آیتِ ربا میں یہ فرمان ہے کہ: (اللہ نے گزشتہ کو معاف کر دیا) {المائدۃ: ۹۵}۔ پس اللہ تعالی نے سود کے معاملہ میں گزشتہ پر مواخذہ نہیں کیا ، اور معاف کردیا ، لیکن جب علم حاصل ہوا تو پھر محرمات سے رکنا واجب ہو گیا ، اور ان محرمات میں وہ بھی شامل ہے جن چیزوں کی حرمت واضح ہوگئی۔
اور اگر یہ بات واضح ہوئی کہ اس معاملہ میں شبہہ ہے تو پھر میری رائے ہے کہ جو شخص چاہتا ہے کہ شبہات سے بچے تو وہ دور ہو جائے۔ شعبی ؒ کی حدیث کی وجہ سے جو انہوں نے نعمان بن بشیر ؓ سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا: (حلال سارا کا سارا بلکل واضح ہے اور حرام بھی سارا کا سارا بلکل واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں ، پس جو شخص ان مشتبہات سے بچ گیا تو وہ بری ہوگیا اپنے دین کے لیے) یعنی کہ اپنے رب کے معاملہ میں۔ اور (اپنے عزت کے لیے) ، یعنی کہ لوگوں کے معاملہ میں ۔ پس اگر وہ چاہتا ہے کہ اسے فروخت یا خیرات کرکے یا کسی اور طریقہ سے اپنی جان اس سے چھڑائے تو یہ کرسکتا ہے ۔ اور اگر وہ چاہتا ہے کہ اسی طرح چلتا رہے ، تو میں قطعی طور پر منع نہیں کرتا بلکہ میں حرام بھی نہیں کہتا لکن اگر شبہہ کی نسبت تھوڑی ہو تو اسکے بقدر اپنے مال کو پاک کرلے ۔