حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
بہت سے لوگ فائننس کو لون کا نام دیتے ہیں جبکہ اسے یہ نام دینا غلط ہے، اس لئے کہ فائننس یکسر لون سے مختلف ہے ، کیونکہ تورق [1] کے احکام لون سے مختلف ہوتے ہیں ، اس لئے اس میں ایک ٹکّے یا اس سے کم مال میں بھی ذرا برابر زیادتی جائز نہیں ہے ، مثال کے طور پر اگر میں آپ سے ایک ہزار ریال ادھار لے لوں تو مجھے آپ کو ایک ہزار ریال ہی واپس کرنے چاہئے، اور اگر میں آپ سے ایک ہزار دینار ادھار لے لوں تو مجھے آپ کو ایک ہزار دینار ہی واپس کرنے چاہئے ، اسی طرح اگر میں آپ سے ایک ہزار پاؤنڈ ادھار لے لوں تو مجھے آپ کو ایک ہزار پاؤنڈ ہی واپس کرنے چاہئے اگر میں نے اس میں رتی برابر بھی زیادتی کی تو یہ سود کے زُمرے میں داخل ہو جائے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿جو سُود کھاتے ہیں تو وہ اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو﴾ {البقرۃ: ۲۷۵}۔
درحقیقت فائننس لون کی دوقسمیں ہیں:
پہلی قسم : صحیح فائننس وہ ہے جو صحیح لین دین کے ساتھ ہو جس میں متعین آئٹم کے لئے حقیقی خریدوفروخت تام ہو اور بینک والے فنڈنگ کو مستحکم بنانے کے لئے اس کے مالک بن جائیں اور اس تورق کی شرعی طور پر اجازت بھی ہو تو یہ جائز ہے۔
دوسری قسم : فائننس کی وہ ہے جو سُود کے لئے مختلف حیلوں کے راستے اپناتی ہے اور یہ فائننس کی وہ قسم ہے جس میں سوُد کا ایک حیلہ پایا جاتا ہے، جیسا کہ سوال کرنے والے نے ذکر کیا ہے کہ صرف چند کاغذات پر دستخط کرنی ہوتی ہے اور اس کو کچھ بھی علم نہیں ہوتا کہ اس میں کیا ہے سوائے اس رقم کے جو اس کے اکاونٹ میں داخل ہوتا ہے مثال کے طور پر اس کے اکاونٹ میں ایک ہزار دینار یا ایک ہزار پاؤنڈ داخل ہوتے ہیں جن کو ایک عرصہ بعد قسطوں کے ذریعہ ایک ہزار دو سو یا ایک ہزار تین سو کر کے واپس کرتا ہے ،تو یہ سود کے لئے ایک قسم کا حیلہ ہے جو سراسر ناجائز ہے بلکہ دوسرے معنوں میں تو یہ صراحتا لئے جانے والے سود سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے ، اس لئے کہ یہ ایک فراڈ اور دھوکہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں جبکہ اللہ ان کو دھوکہ دے رہا ہے﴾ {النساء: ۱۴۲} لہٰذا ایک مسلمان کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔
آپ کا بھائی/
أ.د.خالد المصلح
[1] :تورق میں ایک آدمی کوئی چیز خریدتا ہے ثمن موجل کے ساتھ، پھر کسی اور کو وہ کم قیمت میں نقد بیچتا ہے اور اس کو تورق اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس بیع میں مقصود ورِق ہوتا ہے یعنی (چاندی) ، اور اس میں مبیع (سامان) کی ذات مقصود نہیں ہوتا