اگر کوئی شخص اپنے کسی ساتھی کو رقم دے کر اس سے یہ کہے کہ یہ میرے لئے تبدیل کرا دو اور یہ شخص اس میں تجارت نہیں کرتا، اور جب اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ اسے تبدیل کروائیں تو وہ کہتا ہے کہ میں یہ کل آپ کے پاس لے کر آؤں گا، اور پھر وہ اپنے ساتھ وہ مال لے کر آتا ہے جس کی تبدیلی کا اس سے مطالبہ کیا گیا تھا، اب سوال یہ ہے کہ یہ آپ ﷺ کے اس ارشاد گرامی کے تحت تو شامل نہیں ہے: ’’جب سونے کو سونے کے بدلے ، چاندی کو چاندی کے بدلے، آٹے کو آٹے کے بدلے، جَو کو جَو کے بدلے، کھجور کو کھجور کے بدلے، اور نمک کو نمک کے بدلے بیچو تو مثل بہ مثل اور ہاتھ در ہاتھ بیچو ، اور جس نے زیادتی کی یا زیادتی طلب کی تو اس نے سود لیا اور لینے والا اور دینے والا دونوں حکم میں برابر ہیں‘‘، یعنی کیا یہ معاملہ جائز نہیں ہے؟
الوكالة في الصرف