ہمارے علمائے کرام نے سود کے باب میں ذکر کیا ہے کہ جب علت مختلف ہوجائے تو عدمِ تقابض اور عدمِ تماثل جائز ہوجاتا ہے، اور ان کا استدلال آنحضرتﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے ہے جس میں آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو اسے چاہئے کہ وہ معلوم ناپ ، معلوم وزن اور معلوم مدت تک کرے‘‘، اور بعض علماء نے بیع سلم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: عقدِ سلم ذمہ میں ایک عقدِ موصوف ہے جس میں ثمن مؤجل پر قبضہ مجلسِ عقد میں ہوتی ہے، اب یہاں مجھے اس تعریف میں تھوڑا سا اشکال پیدا ہوگیا ہے وہ یہ کہ ان حضرات نے مجلس عقد میں عدمِ تقابض کے جواز کا استدلال کیسے کیا ہے جبکہ علماء اس کی تعریف میں کہتے ہیں کہ مجلس عقد میں مقبوضہ ثمن کے ساتھ؟
الفرق بين السَّلَم والربا