جنابِ مآب میری آپ سے گزارش ہے کہ میرے اس سوال کا جواب تفصیل سے دیں اس لئے کہ آج کل کے دور کے اعتبار سے اس کے جواب جاننے کی مجھے بھی اشد ضرورت ہے اور باقی دوستوں کو بھی ، اللہ تعالیٰ آپ کو بے حد جزائے خیرعطا فرمائے اور آپ کے علم وعمل سے سب کو نفع پہنچائے۔ اگرسُود ان متعین اقسام میں واقع ہو جن کی تحدید احادیث مبارکہ نے کی ہے جیسا کہ (سونا، چاندی، کھجور، گندم، جَو، نمک اور کشمش) اب اگر ایک ہی جنس میں مثلا کھجور میں مختلف انواع ہوں تو پھر زیادتی اور ادھار دونوں جائز نہیں ہیں، اور اگر جنس مختلف ہو مثلا کھجور اور جَو تو اس صورت میں زیادتی جائز ہے اور ادھار ناجائز ، اور اگر سودی جنس کو بغیر سودی جنس کے بیچا جائے تو اس صورت میں زیادتی اور ادھار دونوں جائز ہیں ۔ جیسا کہ اہل علم نے علت کو سودی اجناس میں علت کو ذکر کیا ہے جو سونا چاندی میں وزن ہے اور باقی چیزوں میں کیل اور طعم ہے ، اب سوال یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اب ہر کھائے جانے والی چیز جس میں کیل اور وزن ممکن ہے تو یہ ان اقسام میں داخل ہوگی جن میں سود ہوتا ہے ، جیسا کہ تیل، دودھ، چاول، بریڈ اور بعض پھل اور سبزیاں؟ اور لوہے کا وزن بھی ممکن ہے تو کیا اس کو بھی سونا چاندی پر قیاس کیا جائے گا؟ اور ان سوالات سے مقصود یہ ہے کہ اگر یہ چیزیں اس قسم میں سے ہوں جن میں ادھار کا سود چلتا ہے تو کیا بیعِ آجل کے ذریعہ خریدنے والی چیزیں بھی ادھار کا سود ہوں گی ؟ اور خاص کر بہت سے لوگ اپنی بہت ساری گھر کی ضروریات کی چیزیں پرچون کی دکان سے بطور آجل کے خریدتے ہیں اور پیمنٹ کی ادائیگی مہینے کے شروع میں کرتے ہیں ، اور پرچون کی دکانوں کی اقسام بہت ہیں جن میں پنیر، دودھ، فائن آٹا، بریڈ اور چاول وغیرہ ملتا ہے، اور لوگوں کو اس سے روکنے میں ان کے لئے بہت بڑا حرج اور مشقت ہے خاص کر ان لوگوں کے لئے اس میں مشقت ہے جن کی آمدنی محدود اور تنخواہیں تھوڑی ہیں ، کیا اس میں لوگوں پر حرام کے لئے وسعت نہیں ہوگی؟ اور کس طرح اس بارے میں پتہ چلے گا کہ اس کا خریدنا جائز ہے اور اس کا خریدنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ بہت ساری خریدی گئی چیزیں ان مطعومات میں سے ہیں جن کا کیل بھی ہوتا ہے اور وزن بھی ۔ اسی طرح تجارتی منڈیوں والے گھی اور چاول وغیرہ اپنا سودا تھوک ریٹ پر خریدتے ہیں جس کی قیمت وہ بعد میں دیتے ہیں ، تو کیا ان کا یہ عمل مشروع ہے؟ اور ان تجارتی منڈیوں والوں کے لئے اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہے جن کے پاس مارکیٹ کی روانگی نہ ہوں؟ ازراہ کرم آپ اس کی بھی وضاحت فرمائیں کہ ان حالات میں سودی اور غیر سودی چیزوں کا کیسے پتہ چلے گا؟ اور اس صورت کے ساتھ پرچون کی دکانوں سے ماہانہ پیمنٹ کے اعتبار سے خریدنے کا کیا حکم ہے؟ نیز بیعِ آجل کے ذریعہ ایک تاجر کا تھوک پر سودا خریدنے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر لوہے کی خرید و فروخت ہاتھ در ہاتھ نہ ہو تو کیا سونا چاندی کی طرح لوہا بھی عدمِ جواز کے حکم میں داخل ہے؟
مسألة في بيع الأصناف الربوية بالنقدين آجلاً