میں نے ایک مزدورکے ساتھ اس بات پر ایگریمنٹ کیا کہ وہ اپنے کفالت کنندہ کے عقد کو منظم طریقہ سے فسخ کر دے پھر اپنے وطن جائے اور وہاں سے منظم طریقہ پر میری کفالت میں آجائے ، اب سوال یہ ہے کہ اس کا کیا حکم ہے؟
إفساد أجير على كفيله
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
سوال
میں نے ایک مزدورکے ساتھ اس بات پر ایگریمنٹ کیا کہ وہ اپنے کفالت کنندہ کے عقد کو منظم طریقہ سے فسخ کر دے پھر اپنے وطن جائے اور وہاں سے منظم طریقہ پر میری کفالت میں آجائے ، اب سوال یہ ہے کہ اس کا کیا حکم ہے؟
إفساد أجير على كفيله
جواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
اس طرح کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺنے مسلمان کو دوسرے مسلمان کے حق میں زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے ، اسی سے آپﷺکی حدیث مبارکہ بھی ہے جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: ’’تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے سودے پر بیع نہ کرے‘‘، یہ حکم تمام مالی معاملات کو شامل ہے، اب اسی میں سے اجرت پر مزدوروں کے لینے کا حکم بھی ہے، اس لئے اپنے بھائی کے اجرت لینے کے اوپر آپ کے لئے اس مزدور کو اجرت پر لینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ ان دونوں کا عقد پر اتفاق ہوا ہے، اور اس کے عدمِ جواز کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی اس حکم کے تحت آتا ہے جس سے اللہ کے رسولﷺنے منع فرمایا ہے ۔
اس کی حرمت پر شیخین کی حضرت انسؓ سے روایت کردہ حدیث بھی تائید کرتی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘، اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر ایسا معاملہ جو انسان پر شاق گزرے اور اس کے دل پر ناگوار گزرے تو انسان کو چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے ، اور اگر آپ کو اس مزدور کو اجرت پر لینے کی رغبت ہے تو آپ کو اس کے کفیل سے اجازت لینی چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پسند اور رضامندی کے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
13/09/1424هـ
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
اس طرح کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اللہ کے رسولﷺنے مسلمان کو دوسرے مسلمان کے حق میں زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے ، اسی سے آپﷺکی حدیث مبارکہ بھی ہے جو صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: ’’تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے سودے پر بیع نہ کرے‘‘، یہ حکم تمام مالی معاملات کو شامل ہے، اب اسی میں سے اجرت پر مزدوروں کے لینے کا حکم بھی ہے، اس لئے اپنے بھائی کے اجرت لینے کے اوپر آپ کے لئے اس مزدور کو اجرت پر لینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ ان دونوں کا عقد پر اتفاق ہوا ہے، اور اس کے عدمِ جواز کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی اس حکم کے تحت آتا ہے جس سے اللہ کے رسولﷺنے منع فرمایا ہے ۔
اس کی حرمت پر شیخین کی حضرت انسؓ سے روایت کردہ حدیث بھی تائید کرتی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘، اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر ایسا معاملہ جو انسان پر شاق گزرے اور اس کے دل پر ناگوار گزرے تو انسان کو چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے ، اور اگر آپ کو اس مزدور کو اجرت پر لینے کی رغبت ہے تو آپ کو اس کے کفیل سے اجازت لینی چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پسند اور رضامندی کے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
13/09/1424هـ