×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / کیا مذی نجس ہے ؟

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

کیا مذی نجس ہے ؟ هل المذي نجس

المشاهدات:4394

کیا مذی نجس ہے ؟

هل المذي نجس

الجواب

حامدا و مصلیا۔۔۔۔۔

اما بعد۔۔۔۔۔

عام طور پر اہلِ علم کا یہی قول ہے کہ مذی نجس ہے اور اہلِ علم کی جماعتوں سے اس پر اجماع بھی منقول ہے اور اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں جانتا۔پس مذی وہ لیس دار شفاف مادہ جو شہوت کے دوران خارج ہوتا ہے چاہے مر دسے ہو یا عورت سے ۔ اور مذی نجس ہے اس سے کپڑوں کا پاک پاک کرنا واجب ہے او ر اس کا بدن سے صاف کرنا بھی ضروری ہے۔

مذی کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ وہ نجاستِ غلیظہ ہو دوسرا یہ کہ وہ نجاستِ خفیفہ ہو ، پس جس شخص کو بکثرت مذی خارج ہوتی ہے اسی لئے حضرت علی ؓ نے حضرت مقداد ؓ سے فرمایا کہ وہ اللہ کے نبی سے مذی کے بارے میں سوال کریں کیونکہ آپؓ بکثرت اس میں مبتلا ہوتے تھے تو آپنے ارشاد فرمایا کہ ’’اپنی شرمگاہ پر پانی ڈال لو اور وضو کرلو‘‘۔ نضح کہتے ہیں پانی کا اس طرح چھڑکنا کہ پانی اس جگہ پر پڑے اورمکمل طور پر گیلا نہ کرے ۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ اس صورت میں وہ نجاست ’’نجاستِ خفیفہ ‘‘تھی اور پیش آنے والا امر بھی بکثرت اور بار بار تھا ۔اگر کسی انسان کو یہ بہت کم مقدار میں ہو اور کبھی کبھار خارج ہوتا ہو تو یہ بھی تمام نجاستوں کی طرح ہے اس صورت میں غسل کرنا یعنی دھونا ضروری ہوگا اور صرف نضح اور پانی کا چھڑکنا کافی نہ ہوگا۔ یہی فرق ہے مذی میں کہ اگر وہ خفیفہ ہو یا پھر وہ دوسری تما نجاستوں کی طرح غلیظہ ہو۔

پس مخففہ وہ ہے اس مادہ کے بکثرت خروج کی وجہ سے مشقت اور تنگی کا سامنا ہوکیونکہ بعض مرداور عورتیں یہ کہتے ہیں کہ تھوڑی سی حرارت اور شدت سے مذی خارج ہونے لگتی ہے اور بعض اوقات بغیر شہوت کے مذی خارج ہوجاتی ہے تو اس صورت میں ا ن کے لئے نضح اور چھڑکنا بھی کافی ہوجائے گا دھونا ضروری نہیں ، اور غسل اس صورت میں واجب ہوگا جب شہوت کے ساتھ پانی خارج ہو ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ)  ’’پس دیکھے انسان اس چیز کو جس سے وہ پیدا کیا گیاہے ایک کودتے ہوئے پانی سے ‘‘ ۔ اور یہ صورت مذی میں متحقق نہیں ہوتی کیونکہ وہ کود کر یک بارگی سے خارج نہیں ہوتی او ر اسی وجہ سے اس میں غسل بھی واجب نہیں ہوتا بلکہ اس میں صرف ا س جگہ کو دھونا واجب ہے جس جگہ کو وہ لاحق ہو اور وضو کرنا ہے ۔


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127730 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62718 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59375 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55720 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55188 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52097 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50047 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45060 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف