حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
ج ۔۱ : کبھی تو یہ بطورِ تصحیح کے ہوتا ہے اور کبھی بطورِ تحسین کے اور یہ اختلاف طرق کے ساتھ قوت اور کثرت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔
ج۔۲: اس کا پتہ تجربہ کی بنیاد پر چلتا ہے اور یہ اختلافِ احادیث کی رُو سے مختلف ہوتا ہے۔
ج۔۳: جس نے اس پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اور جس نے اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے پہلے ان دونوں کے استدلال میں غور و فکر کرنا چاہئے ، باقی رہی بات متقدمین کی اور متأخرین کی تو اس میں ماہرائمہ کرام کا کہنا ہے کہ اس سے ہٹنے سے پہلے اچھی طرح جانجھ پڑتال اختیار کرنا چاہئے ۔
ج۔۴: پہلے تو یہ سارے کلمات معنی کے اعتبار سے مترادف ہیں اور اگر بالفرض فرق ہے بھی تو ان کے درمیان تھوڑا سا فرق ہے اور ان سارے الفاظ میں سب سے ضعیف کلمہ علماء جب کسی چیز پر اجماع نقل کرتے ہیں تو کہتے ہیں : لاخلاف فیہ۔
ج۔۵: صحیح اجماع وہی ہے جس پر صحابہ کرامؓ تھے اس لئے کہ ان کے بعد بہت زیادہ اختلاف پیدا ہوا اور امت میں کافی انتشار پیدا ہوا اس لئے ان کا صحیح پتہ نہیں چلتا کہ ان کے اتفاق سے کس نے اجماع نقل کیا ہے، اس لئے امام احمدؒ فرماتے تھے: جس نے بھی اجماع کا دعوی کیا تو وہ جھوٹا ہے اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کا اس میں اختلاف ہوا ہو اور اسے اس اختلاف کا علم نہ ہو۔ اس لئے جب آپ اچھی طرح ان مسائل میں غور و خوض کریں گے جن میں اجماع نقل ہوا ہے تو ان میں بھی آپ کو اختلاف ملے گا۔
ج۔۶: صحابی کے قول میں علماء کے کئی اقوال ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے اقوال میں جو چیز مشہور و معروف ہے اور ان کے زمانہ میں کسی نے اس پر نکیر نہیں کی گئی تو وہ تمام جمھور علماء کے نزدیک حجت ہے۔ اور اگر اس میں کسی قسم کا اختلاف پایا جائے تو پھر اسے کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور ان کے اختلاف کے ساتھ ان کے بعض کا قول حجت نہیں بنے گا۔ اس پر سب کا اتفاق ہے۔ باقی اس میں بعض کا جو قول معروف ہے اور اس کا اختلاف معروف نہیں اور یہ ان اقوال میں سے ہو جو لوگوں کے درمیان منتشر نہ ہوا ہو اس میں علماء اور جمھور میں سے حنفیۃ، مالکیہ، حنابلہ کے درمیان اختلاف ہے اور شوافع کے ہاں بھی ایک قول ہے کہ یہ حجت ہے اور یہی قول درست ہے۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
ج۔۷: ایک قول پر دوسرے قول کی ترجیح کے افادہ میں معنی کے اعتبار سے یہ کلمات مترادفات میں سے ہیں لیکن قوتِ ترجیح میں یہ مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا یہ کہنا: ’’ مال الیہ ‘‘ ان کے ’’ انتصر لہ ‘‘ کہنے سے قول کے ترجیح میں ادنی درجہ ہوتا ہے جو مخالفین کے دلائل پر دلائل اور جوابات کو جمع کرنے اور قول کو اپنانے کا فائدہ دیتا ہے۔
ج۔۸: میرے خیال میں ان سب کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
ج۔۹: کبھی کبھی توضیح و ذکر کا معنی ہوتا ہے لیکن غالب فی الاستعمال اختیار و ترجیح کے طور پر قول کا ذکر کرنا ہوتا ہے۔
ج۔۱۰: بہت سے طریقوں سے پتہ چلتا ہے جن میں اس کتاب کا مراجعہ ہوتا ہے جو اس نے لکھی ہوتی ہے یا پھر جس پہ اس نے فتوی دیا ہوتا ہے تا کہ اس کی رائے معلوم کی جائے اور (تبع فلان )کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اجتھاد کا نتیجہ نہیں تھا۔
ج۔۱۱: محققون اہلِ علم میں سے وہ لوگ ہیں جو دلائل کی چھان بین اور ان کے متعلق بحث و مباحثہ کرنے اور ان پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ان کے متعلق جواب دینے میں مشہور ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی قول کو دلیل کے بغیر ذکر کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے۔
ج۔۱۲: جی ہاں! ان کے درمیان فرق ہے لہٰذا ان کا یہ کہنا ’’ انتھی باختصار ‘‘ بعض کلام کے ترک کے ساتھ نقل کرنا ہوتا ہے، جبکہ اس کا یہ کہنا ’’ انتھی بتصرف ‘‘ کبھی یہ تصرف تو اختصار کے طور پر ہوتا ہے اور کبھی کبھی یہ تصرف بعض جگہوں میں معنی کو نقل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
ج۔۱۳: (تقرر) کا مطلب ہے کہ یہ مستحکم و مشہور ہو گیا اور اس کو اتنے لوگوں نے اپنایا کہ یہ ان کے درمیان متفق علیہ امور میں سے ہو گیا۔
ج۔۱۴: اس میں کوئی فرق نہیں۔
ج۔۱۵: جی ہاں! معلول ضعیف حدیث کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اس لئے کہ اس میں علت ہوتی ہے یا تو وہ علت اس کی سند میں ہوتی ہے یا پھر اس کے متن میں اور علت فی الأغلب اسانید میں ہوتی ہیں۔
ج۔۱۶: یعنی حدیث کی سند جو کہ حدیث کو وصول اور نقل کرنے کے طریق میں سے ہے۔ ایسا راوی جس میں اہلِ علم کا کلام ہوا ہو، کوئی تو اسے ضعیف قرار دیتا ہے اور کوئی اسے قوی قرار دیتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔