×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / کیا عورت پر واجب ہے کہ قضا روزے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لے؟

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

کیا عورت پر واجب ہے کہ قضا روزے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لے؟ هل يجب على المرأة أن تستأذن زوجها في صيام القضاء؟

المشاهدات:3405

کیا عورت پر واجب ہے کہ قضا روزے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لے؟

هل يجب على المرأة أن تستأذن زوجها في صيام القضاء؟

الجواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ

صحیحین کے اندر ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( عورت روزہ نہ رکھے جب اسکا شوہر موجود ہو ( حاضر ہو ) سواے اسکے اجازت سے )) اور اسکا معنی یہ ہے کہ عورت روزہ نہ رکھے بغیر شوہر کی اجازت کے اور یہ حکم نفلی روزہ میں تو بلکل یقین کے ساتھ ہے ۔
لیکن جہاں تک فرض روزہ کی بات ہے تو اگر وقت میں گنجائش نہ ہو یعنی کے رمضان سے پہلے دن کم پڑجائے ( جمہور کے قول کے مطابق کے کہ روزوں کی قضا آئندہ رمضان سے پہلے واجب ہے ۔) پس اس عورت کے لیے روزہ رکھنا جائز ہے اگرچہ شوہر اجازت نہ دے ۔ لیکن اگر وقت میں گنجائش ہو تو پھر اجازت لے لے ۔
کیونکہ ممکن ہے شوہر کو اسکی ضرورت پڑجائے تو اس وقت وہ عورت کہتی ہوگی کے میں روزے سے ہوں ۔ جبکہ شوہر نے اسکو اجازت دی نہیں تھی تو اسکو مجبور کریگا روزہ کھولنے پر اور اس عورت کو پریشانی لاحق ہوگی ۔ پس بہتر ہے کہ اجازت لے شوہر سے ۔

خلاصہ کلام یہ ہے ۔ اگر وقت میں گنجائش ہو تو اجازت لینا واجب نہیں لیکن اگر عورت شوہر کو بتادے کہ وہ روزہ رکھے گی تو اس میں انکے آپس کے تعلق کے لیے بہتری ہوگی ۔
اور یہ فرض روزے کا حکم ہے ۔
اور جہاں تک نفل روزہ کی بات ہے تو اگر وقت میں گنجائش ہو تو عورت اجازت طلب کرے جیسے کے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے حدیث میں ہے (( عورت روزہ نہ رکھے جب اسکا شوہر موجود ہو )) 
اور یہ حکم تب ہے جب عورت نہ جانتی ہو کہ شوہر اجازت دیگا کہ نہیں ۔
اور ممکن ہے کہ جن حالات میں مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہو تو جس دن شوہر بیوی کے پاس نہ ہو تو اس دن وہ شاہد بھی نہ ہوگا  ( موجود یا حاضر شمار نہیں کیا جائگا ) جیسے کے حدیث کی عبارت سے ظاہر ہے ۔
کیونکہ (( حضور صلی اللہ علیہ وسلم جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس داخل ہوے تو فرمانے لگی میں روزے سے ہوں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا گزشتہ کل بھی روزہ رکھا تھا ۔ فرمایا : نہیں ۔ فرمایا : کیا آئندہ کل روزہ رکھو گی ۔ فرمایا : نہیں ۔ فرمایا : روزہ کھول لو )) 
اس روایت سے ظاہر کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہیں لی تھی کیونکہ حضور نے گزشتہ کل اور آئندہ کل دونوں کا پوچھا ۔ پس ظاہر  یہی لگ رہا ہے کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہیں لی تھی اور ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاہد ( موجود یا حاضر) بھی نہ تھے ۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم جویریہ رضی اللہ عنہا کے دن میں نہ تھے ۔ اور یہ تخریج ہے ۔ 
یا پھر یو کہا جائے کہ اگر عورت کو معلوم ہو کہ اسکا شوہر انکار نہیں کریگا اور کلھی اجازت دیگا اور وہ دل سے روزہ کی اجازت دیگا تو اس حال میں عورت کا اجازت طلب کرنا ضروری نہیں ۔ 
بہرحال اجازت لینا ہی احتیاط کا راستہ ہے اور افضل بھی ہے ۔


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127578 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62675 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59226 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55711 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55179 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52042 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50026 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45031 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف