شعبان میں روزے کی کیا فضیلت ہے؟
فضل الصيام في شعبان
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
شعبان میں روزے کی کیا فضیلت ہے؟
فضل الصيام في شعبان
الجواب
حامداََ و مصلیاََ۔۔۔
اما بعد۔۔۔
اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ
صحیحین میں عائشہؓ کی حدیث میں ہےکہ انہوں نے فرمایا:
(میں نے آپﷺ کو رمضان کے علاوہ نہیں دیکھا کہ وہ پورا یا مکمل مہینے کا روزہ رکھتا ہو) لہذا نبیﷺ سے مکمل ماہ کے روزے رکھنا ثابت نہیں سوائے رمضان کے۔
(اورمیں نے نبیﷺکو سوائے شعبان کے کسی مہینے میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اکثرروزے رکھنے کا معمول شعبان میں ہی ہوتا تھا اوریہ بطور نفل اور رمضان کےلئے تیاری ہوتی۔ اور اس مہینے میں روزہ رکھنے کی یہی حکمت ہے۔ اوراس کے علاوہ کی حکمتوں کابھی کہا گیا ہے لیکن مقصود یہ ہے کہ شعبان میں اکثرروزہ رکھاکرتےتھے ۔ اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ شعبان کے اول وآخرمیں روزہ رکھنا برابرہے ۔
اورصحیحین میں حضرت ابوہریرۃؓ کے حوالے سے حدیث ہے کہ نبیﷺ نےفرمایا: ( رمضان سے پہلے ایک یا دو روزہ نہ رکھو البتہ اگرروزہ ایسا ہو کہ ہرکوئی اس دن کا روزہ رکھتا ہو تو پھر روزہ رکھ لے)۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں جو رمضان سے پہلے ایک یا دودن کے روزے سے روکنا ہے یہ اس آدمی کےلئےہیں جوآدمی رمضان کی وجہ سے احتیاط کرنا چاہتاہو۔ کیونکہ یہ رمضان میں زیادتی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اورنبیﷺ نے تو فرمایا : (مگر یہ کہ روزہ ایسا ہوجس کورکھتا ہو کوئی تو وہ بھی روزہ رکھے) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر یہ روزہ عادت کے طور پرہو جیسے کہ پیراورجمعرات کے روزے ہوتے ہیں اوراتفاقا رمضان سے ایک یا دو دن پہلے پیر کا دن آجائے یا مثال کے طور پر اس کی عادت ہو ہر مہینہ تین روزوں کا اور اس کو تین روزے پورا کرنے کا موقع نہ ملے سوائے رمضان سے دو تین پہلے کا تو اسے شخص کے لئے کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ معتاد ہے، لیکن رمضان کی وجہ سے احتیاط کرتے ہوئے روزے نہ رکھے۔
یہاں ایک آخری مسئلہ باقی رہا جو سنن میں حضرت ابوہریرۃ ؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : (جب شعبان آدھ کو پہنچے تو پھر روزہ نہ رکھو) پس یہ حدیث صحیح نہیں اسناد کےاعتبارسےلہذا جب شعبان آدھا گزر جائے تو روزہ رکھنے سے روکنا صحیح نہیں ہوگا اس کے علاوہ یہ حدیث اس بات کی بھی مخالف ہے جس پر ابوہریرہؓ کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ (رمضان سے پہلے ایک یا دو دن روزہ نہ رکھو) اوراسی مسئلہ کے مطابق جتنا چاہے اس مہینےکے اول سے ہو یا آخرسے روزہ رکھو سوائے رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھ احتیاط کرنے کی وجہ سے اور اگر عادت کی وجہ سے رکھ لئے،توکوئی حرج نہیں۔