×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / مشت زنی کے بعد غسلِ جنابت کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

ایک آدمی نے نامعلوم مرتبہ مشت زنی کا ارتکاب کیا جبکہ وہ غسل جنابت سے بھی جاہل تھا، بعد میں پتہ چلنے پر توبہ تائب ہوا، لہٰذا اب اس پر کیا کفارہ لازم آئے گا ؟ مارس العادة السرية ولم يكن يعلم حكم الاغتسال

المشاهدات:2822

ایک آدمی نے نامعلوم مرتبہ مشتِ زنی کا ارتکاب کیا جبکہ وہ غسلِ جنابت سے بھی جاہل تھا، بعد میں پتہ چلنے پر توبہ تائب ہوا، لہٰذا اب اس پر کیا کفارہ لازم آئے گا ؟

مارس العادة السرية ولم يكن يعلم حكم الاغتسال

الجواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

 بتوفیق الٰہی ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام رسولوں کو نذیر و بشیر بنا کر مبعوث فرمایا، اور اس طرح ان کا مبعوث فرمانا تمام عالمِ انسانیت کے لئے حجت ہے،  جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم تب تک عذاب سے دو چار نہیں کرتے جب تک ہم رسول نہ بھیجیں‘‘ ۔ (الاسرء: ۱۵)۔ لہٰذا جتنے بھی قوانین و پاپندیاں ہیں وہ ان کو جاننے کے بعد ہی لاگوں ہوتے ہیں جب ان کے بارے میں علم ہی نہ ہو تو وہ لاگوں کیسے ہوں گے ؟ یعنی انسان جب تک کسی چیز کے بارے میں نہیں جانتا تب تک نہ تو وہ اس پر واجب ہوتی ہے اور نہ ہی حرام، پس علم ہی اصل منبع و مصدر ہے،  جس کے ذریعہ کوئی پابندی عائد ہوتی ہے، اور اگر کوئی شخص کسی حکمِ شرعی سے یکسر انجان و جاہل رہا ہو جیسا کہ اس بھائی کا حال ہے کہ اسے مشت زنی کے غسلِ جنابت کے بارے میں بالکل معلوم ہی نہ تھا اور اس طرح اس نے کبھی غسل نہیں کیا تو اس سے اس کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی اس کہ عبادت پر، اس لئے کہ وہ پہلے اس کے حکم سے جاہل تھا ، لہٰذا اس کی نماز درست ہے اور اس نے بغیر غسل کے جتنی بھی نمازیں پڑھی ہیں تو ان پر اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

لیکن انسان کو اتنا علم تو حاصل کرنا چاہئے جس سے وہ اپنے دین کو سمجھ و سنوار سکے اور جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تک صحیح طریقہ سے پہنچ سکے،  اور علم کی دو قسمیں ہیں: ایک علم کفایہ اور دوسرا علمِ عینی یعنی وہ علم جس کا سیکھنا ہر شخص پر واجب ہے، اور علمِ کفایہ سے وہ علم مراد ہے کہ اگر اس کو بعض لوگ حاصل کرلیں تو اس سے سب کی کفایت ہو جائے گی، اور علمِ عینی وہ علم ہے جس کا سیکھنا ہر شخص پر واجب ہے اور یہ وہ علم ہے جس سے وہ اپنے دین کو طہارت و نماز میں قائم کر سکے، اور اس سے پہلے جو متعلق ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے لئے اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کو مستحکم کرنا ہے۔

اور اتنا علم ہر شخص پر فرض ہے، لہٰذا اس سے پیچھے ہٹنا کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس کے ذریعے اس پر جو واجب ہوتا ہے اس سے اور اللہ تک پہنچنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔

بہر حال مقصوود یہ ہے کہ جب تک اسے علم نہیں ہے اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہوتا، اللہ سے دعا گو ہوں اس کی اور ہم سب کی مغفرت فرمائے۔  (آمین) ۔


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127714 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62716 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59362 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55720 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55188 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52094 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50047 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45059 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف