حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔
آدمی کا اپنے آپ میں ہی طلاق طلاق طلاق کے الفاظ کہنا دو طرح کے احتمال سے خالی نہیں ہے:-
پہلا احتمال: اس کا ارادہ اس طرح تین مرتبہ دہرانے سے طلاق میں تأکید پیدا کرنا ہو، اس صورت میں ایک طلاق واقع ہو گی کیونکہ تکرار تأکید کیلئے تھا اور کلام عرب میں اس کا استعمال مقصودی بھی پایا جاتا ہے، تو اب اگر یہ طلاق اول یا طلاق ثانی بنتی ہے تو یہ طلاق رجعی ہی ہو گی۔
دوسرا احتمال: اس کا ارادہ اس تکرار سے تین طلاق دینا ہو تو اس صورت میں یہ طلاق بدعی ہو گی جو کہ حرام ہے جمہور علماء کے مطابق، کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول میں جو مشروع طلاق ہے وہ یہ ہے کہ آدمی صرف ایک طلاق دے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((طلاق دو مرتبہ ہے)) پھر فرمایا: ((اب پھر اگر اسے طلاق دے دے تو یہ اس کیلئے حلال نہیں)) [البقرہ: ۲۲۹،۲۳۰] لہذا آیت کے مطابق تین متفرق طلاقیں ہونگیں۔
نسائی نے محمود بن لبید کی روایت ذکر کی ہے جس کی سند کے تمام رجال معتمد ہیں، کہ نبی ﷺکو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق اکٹھی دے دی ہیں تو آپﷺکھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: ((کیا اللہ کی کتاب سے کھیلا جائے گا جبکہ میں تمہارے درمیان زندہ ہوں)) [النسائی: ۳۴۰۱] تو نبی ﷺنے تین طلاق اکٹھی دینے کو اللہ کی کتاب سے کھیلنے سے تعبیر کیا، اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ یہ تین طلاق ایک مجلس میں ہوں یا متفرق مجالس میں۔
اور جہاں تک خاص طور پر ایسی صورت میں طلاق کے وقوع کا تعلق ہے تو سنت رسول اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ جس نے تین طلاق دے دیں تو صرف ایک ہی واقع ہو گی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے مشروع کردہ طریقے سے انحراف ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے حضرت عائشہ ؓ کی روایت کردہ حدیث میں جو کہ بخاری اور مسلم نے ذکر کی ہے: ((جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو کہ اس کا حصہ نہ ہو تو وہ مردود ہے)) [بخاری: ۲۶۹۷]۔
اور مسلم {۱۴۷۲} میں ابن عباس کی حدیث مذکور ہے: ((رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ابوبکر ؓ کے زمانے میں اور عمرؓ کی خلافت کے پہلے دو سال میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں، تو عمر بن خطاب نے کہا: لوگوں نے اس امر میں جلدی شروع کر دی ہے جس میں پہلے تحمل مزاجی تھی تو کیا خیال ہے اب ہم ان پر یہ حکم نافذ کر دیں، تو انہوں نے ان پر یہ حکم نافذ کر دیا)) اور مسند احمد {۱/۲۶۵} اور سنن ابی داؤد {۲۱۹۶} میں جید سند کے ساتھ ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں پھر ان کو غم ہوا تو نبی ﷺنے فرمایا: یہ ایک طلاق ہی ہے۔
اور اسی قول کی طرف یعنی تین کو ایک شمار کرنے کی طرف علماء کی ایک جماعت کا صحابہ ؓ کا اور ان کے بعد والوں کا میلان ہے، اور راجح بھی یہی ہے اگرچہ یہ جمہور کے خلاف ہے۔
اسی بنیاد پر سائل نے جو تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کے بارے میں سؤال کیا ہے تو اس سے بھی ایک طلاق ہی مراد لی جائے گی، اب اس پر واجب ہے کہ توبہ کرے کیونکہ اس نے امر مشروع کی خلاف ورزی کی ہے، اس کو اختیار حاصل ہے کہ اپنی بیوی سے رجوع کرے جب تک وہ عدت میں ہے اور اگر طلاق دینا چاہے تو ایسے ہی طلاق دے جیسے اسے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے یعنی ایک طلاق دے جو کہ ایسے طہر میں ہو جس میں اس نے جماع نہ کیا ہو، واللہ اعلم
رکن مجلس افتاء، شہر قصیم
أ.د خالد بن عبدالله المصلح
22 / 3 / 1436هـ