قبر کے گرد پتھروں سے دائرہ بنانے کا یا اس پر لکڑی، لوہا یا ٹہنی رکھ کر نشانی لگانے کا کیا حکم ہے؟ یہ اعتقاد کیلئے نہیں بلکہ صرف یہ یاد رکھنے کیلئے کہ یہ فلاں کی قبر ہے
حكم تحويط جوانب القبر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
قبر کے گرد پتھروں سے دائرہ بنانے کا یا اس پر لکڑی، لوہا یا ٹہنی رکھ کر نشانی لگانے کا کیا حکم ہے؟ یہ اعتقاد کیلئے نہیں بلکہ صرف یہ یاد رکھنے کیلئے کہ یہ فلاں کی قبر ہے
حكم تحويط جوانب القبر
الجواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہیں۔
اہل علم کا قبر پر نشان لگانے کے بارے میں اختلاف ہے جس میں متعدد اقوال ہیں: جمہور علماء کا مذہب تو یہی ہے کہ قبر پر کوئی پتھر ، لکڑی ، ٹہنی یا کوئی اور چیز رکھ کر نشان لگانا جائز ہے، یہی مذہب مالکیہ ، حنابلہ اور حنفیہ کی ایک جماعت کا ہے جبکہ شافعیہ کا کہنا ہے کہ یہ مستحب ہے دلیل ابو داؤد کی روایت ہے جو کہ مطلب سے مروی ہے، کہ جب عثمان بن مظعون کو دفن کیا گیا نبی ﷺنے اس کے سر کے قریب ایک پتھر رکھ دیا اور فرمایا: ((مجھے اس سے اپنے بھائی کی قبر کا پتہ رہے گا اور میرے اہل میں سے جو مر گیا اسے اس کے ساتھ دفن کروں گا)) ابوداؤد نے یہ روایت مطلب بن عبد اللہ بن حنطب عمن لم یسمہ من الصحابہ کے طریق سے ذکر کی ہے یعنی صحابی مذکور نہیں ہیں، لیکن یہ جہالت مقبول ہے کیوں کہ صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں، اور اس حدیث کے لینے میں کوئی حرج نہیں، حافظ ابن حجر نے اس کے بارے میں کہا ہے: اس کی سند حسن ہے اس میں کثیر بن زید کے علاوہ کوئی نہیں جو کہ مطلب سے حدیث روایت کر رہے ہیں اور وہ بھی صدوق ہیں، باقی رہی حنفیہ کی بات تو ان کے ہاں قبر پر نشان لگانا مکروہ ہے کیونکہ قبر پر لکھنے کے بارے میں ممانعت آئی ہے، راجح یہی ہے کہ اگر کوئی مصلحت ہو تو قبر پر نشان لگانا سنت ہے ورنہ جائز ہے۔
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
15/11/1424هـ