شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہیں۔
احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے اکثر فقہاء کا کہنا یہی ہے کہ تعزیت صرف تین دن تک کیلئے ہے اور انہوں نے اس کی علت یہ ذکر کی ہے کہ تعزیت سے مقصود پریشان دل کو حوصلہ اور تسلی دینا ہے اور غالب یہ ہے کہ یہ مقصود اتنی مدت میں حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد تعزیت کرنے میں ایک بار تسلی مل جانے کے بعد دوبارہ اس کے غم کو لوٹانے کی سی صورت ہوتی ہے، فقہائے حنابلہ نے اس پر اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو کہ بخاری (۱۲۸۲) اور مسلم (۱۴۸۶) میں ام حبیبہ ؓ کی روایت مذکور ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((عورت جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کیلئے حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے اس کے شوہر کے کہ اس کیلئے چار مہینے دس دن سوگ منائی گی)) تو ان حضرات نے کہا کہ ان تین دنوں میں سوگ منانے کی اجازت اس بات پر دال ہے کہ تعزیت کا وقت یہی تین دن ہیں۔
اور جہاں تک اس کی بات ہے جو آپ نے ایک ہفتہ، چالیس دن یا شیعوں کے ہر سال چالیس دن کا ذکر کیا تو یہ سب ان بری بدعات میں سے ہے جو کہ شریعت کو جاننے والا اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ یہ بدعات حرام ہیں اور اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور یہ اس جاہلیت کے سوگ میں سے ہیں جو کہ یہود و نصاری سے لیا گیا تھا، پس اس طرح کی کوئی چیز نہ خود کرنے کے اعتبار سے جائز ہے اور نہ ہی اس میں شرکت جائز ہے