×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / اجارہ (کوئی چیز کرایہ پر لینا) کا وہ معاملہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

اس اجارہ (کوئی چیز کرایہ پر لینا) کے متعلق مسئلہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے الإجارة المنتهية بالتمليك

المشاهدات:3167

اس اجارہ (کوئی چیز کرایہ پر لینا) کے متعلق مسئلہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے

الإجارة المنتهية بالتمليك

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

وہ اجارہ (کوئی چیز کرایہ پر لینا) جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے مالی معاملات کے میدان میں ایک نیا معاملہ ہے ،اسی لیے عام معاملات کی طرح اس کی ابتداء ایک خاص صورت میں ہوتی ہے جس میں کچھ شرعی پابندیاں ہوتی ہے ، پھر اس گزرے عقد (معاملہ ) میں پابندیاں ہیں ان میں ترمیم ہوتی ہے اور وجہ اشکال ختم کیا جاتا ہے ، اسی لیے ابتدائی طور پر اس مسئلہ پر فتوی بھی حرمت کا تھا ۔ کیونکہ یہ ایسا عقد تھا جس میں بیک وقت ایک عقد میں دو عقد شامل تھے۔ جس کی وجہ سے اس عقد پراجارہ اور بیع دونوں کے احکامات مترتب ہو رہے تھے۔ اور ایسا ہونا نا ممکن ہے ۔

در حقیقت اختلاف دو عقدوں کے معاملہ کا تھا ، اسی لیے اس وقت ہیئۃ کبار العلماء کی طرف سے فتوی بھی تحریم کا صادر ہوا تھا ، اس لیے کہ اس معاملہ میں بیک وقت ایک عقد میں دو عقد شامل ہیں ۔ جبکہ دونوں عقد آپس میں مختلف قسم کے ہیں جن کے احکامات کو ایک معاملہ میں جمع کرنا ممکن نہیں ۔ اور اسکے بعد معاملہ کی اس صورت میں کچھ کمپنیوں اور مختصین و محققین کی طرف سے اس میں اصلاح و ترمیم ہوا ، اور کچھ ایسی صورتیں وجود میں آئی جن میں شریعت کی پابندیوں اور دیے گئی آراء کا لحاظ تھا۔ اسی لیے بعد میں دوبارہ مجمع الفقہ الاسلامی کی طرف سے کچھ صورتوں میں جواز کا فتوی صادر ہوا، اور کچھ میں حرمت کا ۔اس لیے اس معاملہ (اجارہ کا وہ معاملہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے) میں مطلقا حرمت کا فتوی نہیں دیا جاسکتا ۔ اور نہ ہی مطلقا اباحت کا کہا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس مسئلہ کی ساری صورتیں ایک جیسی نہیں ہے بلکہ اسکی کئی صورتیں ہیں ۔ تو لہذا جب انسان کسی سے اس طرح کا کوئی معاملہ کرے اور پھر طرفین کا آپس میں کوئی اختلاف واقع ہوجائے ۔ تو اس وقت عدالت اس معاملہ کی حقیقت کے بارے میں فیصلہ کرے گی کہ یہ معاملہ بیع کا تھا یا اجارہ ، اور جائز تھا کے نا جائز ۔ لہذا اس مسئلہ کے حل کے لیے عدالت کے پاس ہی جانا ہوگا ۔

بہر حال اجارہ کا وہ معاملہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے سرمایہ کاری کے بہت ساری ایسی صورتوں سے کافی بہتر ہے جن کو اسلامی سرمایہ کاری کا نام دیا جاتا ہے یا انکے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ کاری اصول و ضوابط کے مطابق ہے ، حالانکہ حقیقت میں اس معاملہ کی اکثر صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں کھلم کھلا سودی معاملہ کے ساتھ ایک قسم کا حیلہ ہے ، جس میں کچھ غلط اور مشکوک راستوں کے ذریعہ عقد سے خلاصی ہوجاتی ہے۔

یہ سارا خلاصہ اجارہ کے اس معاملہ کے متعلق تھا جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے ، تو اس کے اکثر صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور اگر آپکو کسی خاص صورت میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسکے بارے میں سوال کیجئے گا


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127536 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62642 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59116 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55699 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55174 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52009 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50009 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45003 )

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف