×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / دورِ حاضر میں غلاموں کی تجارت کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

دور حاضر میں غلاموں کی تجارت کا کیا حکم ہے؟ کیا خریدی ہوئی باندی جماع اور خلوت کے اعتبار سے ملک یمین کے حکم میں ہے؟ یہ بات پیش نظر رہے کہ بعض ملکوں میں غلاموں کی تجارت کا بہت بڑا رواج ہے جو یا تو اغوا کے سبب ہوتی ہے یا جنگ کے سبب؟ حكم تجارة الرقيق في العالم اليوم

المشاهدات:1585

دورِ حاضر میں غلاموں کی تجارت کا کیا حکم ہے؟ کیا خریدی ہوئی باندی جماع اور خلوت کے اعتبار سے مِلکِ یمین کے حکم میں ہے؟ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ بعض ملکوں میں غلاموں کی تجارت کا بہت بڑا رواج ہے جو یا تو اغوا کے سبب ہوتی ہے یا جنگ کے سبب؟

حكم تجارة الرقيق في العالم اليوم

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

دورِ حاضر کے غلام کی حالت کے بارے میں صحیح علم نہیں ہے کہ وہ اصل میں غلام ہے یا نہیں ، اس لئے کہ اکثر ہمارے سننے میں آتا ہے کہ یہ یا تو فراڈ کے ذریعہ ہوتا ہے یا پھر کسی آزاد آدمی کو غلام بناکر بیچا جاتا ہے ، بہر کیف اگر یہ معاملہ کفار کے ساتھ ہو تو پھر کافر سے غلام خریدنا جائز ہے، اور اس سے ہدیہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ جیسا کہ سِیر اور تراجم کی کتابوں میں مشہور ہے کہ مصر کے بادشاہ نے جب آپ کو ماریہ قبطیہؓ ہدیہ میں دی تو آپنے اس سے ماریہ قبطیہ ؓ کو بطور ہدیہ قبول فرمایا، اور دوسری بات یہ کہ اصل معاملات میں حلّت ہی ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال قراردیا ہے‘‘، لیکن اس کے باوجود بھی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے کفار سے غلام خریدنے کو ناپسند فرمایا ہے، بیہقی نے اپنے سنن {9/140} میں صحیح اسناد کے ساتھ حضرت عمرؓ سے روایت کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں: اہلِ ذمہ کے غلام نہ خریدو اس لئے کہ وہ اہل خراج ہیں جو آپس میں بعض بعض کو بیچتے ہیں۔

باقی رہی کراہت کی علت تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، ان اقوال میں سب سے زیادہ أقرب الی الصواب قول ابن القیمؒ کا ہے جو انہوں نے کتاب احکام اھل الذمہ {1/133} میں ذکر کیا ہے : "گویا کہ حضرت عمرؓ نے کفار کے غلاموں کے لئے وہ احکام ثابت نہیں کئے جو مسلمانوں کے غلام کے لئے ثابت ہوتے ہیں، اور ان کو یہ علم تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو بیچتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حقیقی طور پر غلام ثابت نہیں ہوتا، اس لئے مسلمانوں کو ان کے خریدنے سے روکا گیا" پھر فرمایا: اس پر حضرت علیؓ نے بھی ان کی موافقت کی اور مسلمان کے لئے ان کا خریدنا ناپسند فرمایا، اور سعید فرماتے ہیں: قتادہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ ان کے غلام خریدے جائیں الا یہ کہ جو ان کے علاوہ اور ممالک سے ہوں جیسا کہ اگر کوئی زنجی ہو یا خراسانی ہو تو وہ ایک دوسرے کو نہیں بیچتے ۔

ساری بحث کا لب لباب اورخلاصہ یہ ہے کہ اس کی کراہت کی وجہ غلامی کی عدمِ توکید ہے ، پس اگر کوئی اس احتیاط سے لے لے تو اچھا ہے ، اور اگر کوئی ایسا نہ بھی کرے پھر بھی خریدنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں ، اور اگر آپ کو یہ یقین ہوجائے یا غالب گمان ہوجائے کہ یہ غلام نہیں ہے بلکہ ایک آزاد آدمی کو غلام بنایا جا رہا ہے تو اس صورت میں اس کا خریدنا جائز نہیں ہے ۔ واللہ أعلم


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127301 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62442 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58479 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55639 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55144 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51717 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49852 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44090 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف