×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / اس بیع کی کیا اصل ہے؟

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

یہاں ہمارے ہاں خرید وفروخت کا ایک طریقہ پایا جاتا ہے جسے کریڈٹ لیزنگ کہا جاتا ہے، ایک طالب علم نے مجھے اس کا نام وہ عقد اجارہ بتایا ہے جو مفضی الی بیع ہو، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثلا میں ایک ایسی گاڑی خریدنا چاہتا ہوں جس کی قیمت 93024 درہم ہے اور یہ رقم میں ایک فاؤنڈیشن ادارہ کو دوں گا جو کہ واقعی ایک سودی ادارہ ہے، جیسا کہ 8075 درہم پیشگی کے طور پر ادا کروں گا اور پھر پانچ سال کی مدت میں ماہانہ 1724 درہم ادا کروں گا، اور ان پانچ سالوں کی مدت میں یہ گاڑی اس سودی فاؤنڈیشن ادارہ کے نام ہوگی ، اور میں گاڑی کا کرایہ دار رہوں گا، اور اگر چھ ماہ کی قسطیں میں نے ادا نہیں کیں تو وہ مجھ سے اپنی گاڑی لے لیں گے ، اور جب ساٹھ ماہ پورے ہوجائیں گے تو میں ٹوکن رقم ادا کروں گا جو 749 درہم ہیں ، اور اسطرح یہ گاڑی اب میری ملکیت میں آجائے گی اور میرے لئے اس میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار حاصل ہوجائے گا، اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا معاملہ کرنا حلال ہے؟ مجھے اس بارے میں فتوی دیں اللہ تعالیٰ آ پ کو اس کا اجر عطا فرمائے ما صحة هذا البيع

المشاهدات:1059

یہاں ہمارے ہاں خرید وفروخت کا ایک طریقہ پایا جاتا ہے جسے کریڈٹ لیزنگ کہا جاتا ہے، ایک طالب علم نے مجھے اس کا نام وہ عقد اجارہ بتایا ہے جو مفضی الی بیع ہو، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثلا میں ایک ایسی گاڑی خریدنا چاہتا ہوں جس کی قیمت 93024 درہم ہے اور یہ رقم میں ایک فاؤنڈیشن ادارہ کو دوں گا جو کہ واقعی ایک سُودی ادارہ ہے، جیسا کہ 8075 درہم پیشگی کے طور پر ادا کروں گا اور پھر پانچ سال کی مدت میں ماہانہ 1724 درہم ادا کروں گا، اور ان پانچ سالوں کی مدت میں یہ گاڑی اس سُودی فاؤنڈیشن ادارہ کے نام ہوگی ، اور میں گاڑی کا کرایہ دار رہوں گا، اور اگر چھ ماہ کی قسطیں میں نے ادا نہیں کیں تو وہ مجھ سے اپنی گاڑی لے لیں گے ، اور جب ساٹھ ماہ پورے ہوجائیں گے تو میں ٹوکن رقم ادا کروں گا جو 749 درہم ہیں ، اور اسطرح یہ گاڑی اب میری ملکیت میں آجائے گی اور میرے لئے اس میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار حاصل ہوجائے گا، اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا معاملہ کرنا حلال ہے؟ مجھے اس بارے میں فتوی دیں اللہ تعالیٰ آ پ کو اس کا اجر عطا فرمائے

ما صحة هذا البيع

الجواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

آپ نے اپنے سوال کے اندر جس عقد کے اوصاف بتائے ہیں تو یہ ظلم پر مشتمل ہے ، اور وہ اس طرح کہ جب خریدار قسطوں کی ادائیگی سے لاچار آتا ہے تو یہ اس سے اپنی گاڑی واپس لے لیتے ہیں اور اس خریدار کو کوئی عوض نہیں دیا جاتا، اور یہ لوگوں کے اموال باطل ذریعہ سے کھانے کا ایک طریقہ ہے، اس لئے کہ عقد کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ ایک بیع ہے اجارہ نہیں، بایں طور کہ اس نے پیشگی کے طور پر کچھ مال دیا ہے، پس اس عقد کی جواز کی ایسی کوئی صورت ہو جس کی وجہ سے ظلم و زیادتی دور ہوسکے ، وگرنہ یہ عقد جائز نہیں ہے


الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127316 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62456 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات58507 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55640 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55145 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات51732 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات49864 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات44151 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف